لواطت اور اس کے دواعی کا حکم

فتویٰ نمبر:758

سوال:زید اور عمر جو ایک یونیورسٹی کے  طالب ہیں اور ان کے ساتھ ایک بکر بھی ہے تو زید اور عمر نے بکر کے ساتھ لواطت کرنا چاہی مگر بکر انکار کرتا رہا اور زید اور عمر زبردستی ہاتھوں کے ساتھ چھیڑتے رہے اور زید ، عمر لواطت کرنا چاہتے تھے مگر بکر چیخنے اور انکار کی بناء پر دخول اور خروج نہ کر سکے بالکل بھی اور پھر بکر نے پرنسپل سے شکایت کی کہ زید اور عمر نے میرے ساتھ لواطت کی تو پرنسپل نے زید اور عمر کو بلا کر پوچھا تو زید اور عمر نے کہا کہ ہم نے لواطت نہیں کی مگر ہاتھ کے ساتھ چھیڑتے رہے تو پرنسپل نے قرآن سر پر رکھوایا ( یعنی زید اور عمر کے سر پر ) اورکہا کہ یہ الفاظ کہو کہ “اگر میں نے بکر کے ساتھ لواطت کی ہو تو مجھ پر اللہ کی لعنت اور علم سے محروم ہو جاؤں “،یہی الفاظ زید اور عمر نے قرآن سر پر رکھ کے کہے جبکہ زید اور عمر سے دخول اور خروج بالکل نہ ہو سکا ۔

    تو اب مسئلہ میں کچھ چیزیں مطلوب ہیں :

(۱) زید اور عمرنے جو قرآن مجید سر پر رکھا یہ جھوٹا رکھایا سچا ؟

(۲)  ہاتھوں کے ساتھ چھیڑنا یہ لواطت میں شامل ہے یا نہیں ؟

(۳)  زید اور عمر خدا کی لعنت اور علم کی محرومی کے مستحق ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو کیا حل ہے؟

(۴) اگر قرآن مجید کو سر پر جھوٹا رکھا اور علم کی محرومی کا سبب بنا تو ان کو کیا کرنا چاہیئے؟

(۵)  فی الوقت زید اور عمر وبکر پر کیا حکم ہے؟

(۶) لواطت کی کیا تعریف ہے؟

الجواب حامدا   ومصلیا

واضح رہے کہ شرعا ً  لواطت کہتے ہیں کہ کسی لڑکے یا عورت کے پائخانہ کی جگہ میں مرد کا اپنے آلۂِ  تناسل کو اس طرح داخل کرنا کہ اس کی شرمگاہ کا اگلا حصہ اس میں چھپ جائے ۔(۱)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3 / 181):

ولأنه في معنى الزنا لأن فيه قضاء الشهوة بسفح الماء في محل مشتهى على سبيل الكمال على وجه تمحض حراما……. ولا خفاء في كونه مشتهى لأن المحل إنما يشتهى باللين والحرارة والدبر في هذا المعنى كالقبل.

فتح المعین(308/2):

       وجہ المغایرۃ علی ما ذکرہ فی النھر اختصاص اللواطۃ باتیان الذکر  فی دبرہ الخ .

لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں اگر زید اور عمرو نے واقعۃ ً بکر کے ساتھ اس کے پاخانہ کی جگہ میں اپنے عضو کا دخول نہیں کیا تو شرعا ً وہ حقیقی لواطت کے مرتکب نہیں ہوئے اورنہ ہی پرنسپل کے رُوبرو ان کی قسم جھوٹی شمار ہوگی ۔

تاہم اتنی بات ضرور یاد رکھی جائے کہ مذکورہ بالا معنی میں جس طرح لواطت حرام ہے اسی طرح ہاتھوں سے چھیڑ چھاڑ کرنا اور ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو دیکھنا  ہاتھ لگانا اور اس سے کھیلنا یا اس کے علاوہ جسم کے اور کسی حصہ کو بغرض ِ شہوت ہاتھ لگانا یا چھیڑ چھاڑ کرنا یا دیکھنا سب امور شریعت کی نگاہ میں حرام ہیں کیونکہ یہ امور اگرچہ حقیقۃً  لواطت نہ ہوں مگر اصطلاح ِشریعت میں دواعی اور اسباب لواطت کے ضرور ہیں اور کم از کم غیر محل میں شہوت کے تقاضہ کو پورا کرنے کے معنیٰ اس میں بدرجہ ِٔ اتم موجود ہیں اس لئے یہ امور بھی شرعا ً حرام ہیں ۔(۲)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 399):

 بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ بِكَفِّهِ وَنَحْوِهِ وَعَلَى هَذَا فَلَوْ أَدْخَلَ ذَكَرَهُ فِي حَائِطٍ أَوْ نَحْوِهِ حَتَّى أَمْنَى أَوْ اسْتَمْنَى بِكَفِّهِ بِحَائِلٍ يَمْنَعُ الْحَرَارَةَ يَأْثَمُ أَيْضًا وَيَدُلُّ أَيْضًا عَلَى مَا قُلْنَا مَا فِي الزَّيْلَعِيِّ حَيْثُ اسْتَدَلَّ عَلَى عَدَمِ حِلِّهِ بِالْكَفِّ بِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ} [المؤمنون: 5] الْآيَةُ وَقَالَ فَلَمْ يُبَحْ الِاسْتِمْتَاعُ إلَّا بِهِمَا أَيْ بِالزَّوْجَةِ وَالْأَمَةِ اهـ فَأَفَادَ عَدَمَ حِلِّ الِاسْتِمْتَاعِ أَيْ قَضَاءِ الشَّهْوَةِ بِغَيْرِهِمَا هَذَا مَا ظَهَرَ لِي وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ.

لہٰذا زید عمر کے مذکورہ افعال بھی شرعا ً حرام ہیں اور لائقِ تنبیہ وقابلِ اصلاح ہیں ان پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کریں اور آئندہ کے لئے ایسے امور سے اجتناب کا عزم  مصمم کریں

التخريج

(۱)قواعد الفقه لمحمد عميم الإحسان البركتي .الناشر: الصدف ببلشرز – كراتشي (1 / 456):

اللواطة هِيَ الْإِتْيَان فِي الدبر ووطؤه وَهُوَ حرَام نقلا وعقلا.

شرح البخاري للسفيري = المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية (2 / 154):

ظهور اللواط وانتشاره بين الناس كظهور الزنا في أنه من علامات الساعة.

قال ابن الجوزي في كتابه سوق العروس: روى ابن ماجة عن جابر عن النبي – صلى الله عليه وسلم – أنه قال: «إن أخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط» (2) .

وقال رسول الله  صلى الله عليه وسلم :۔«لعن الله عمل عمل قوم لوط» (3) .

وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :۔«من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوه الفاعل والمفعول به»

معجم اللغة العربية المعاصرة  لأحمد مختار عبد الحميد عمر (المتوفى: 1424هـ) (3 / 2047):

4651 – ل و ط

لاطَ2 يَلوط، لُطْ، لِواطًا ولِواطةً، فهو لائط• لاطَ فلانٌ: فعل ما كان يفعل قومُ لوطٍ من مباشرة الذُّكور.

4651 – ل و ط

لِواط [مفرد]:

1 – مصدر لاطَ2.

2 – شذوذ جنسيّ بين رجلين.

(۲)النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 269):

(مساحقة الرِّجَال بِالرِّجَالِ)

واما مساحقة الرِّجَال بِالرِّجَالِ فانها لَا تُحرِّم شَيْئا وفيهَا التَّعْزِير وَلَيْسَ فِيهَا حد.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 264):

كَمَا لَا يَجُوزُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا فِي الْوَطْءِ لَا يَجُوزُ فِي الدَّوَاعِي مِنْ اللَّمْسِ وَالتَّقْبِيلِ وَالنَّظَرِ إلَى الْفَرْجِ عَنْ شَهْوَةٍ؛ لِأَنَّ الدَّوَاعِيَ إلَى الْحَرَامِ حَرَامٌ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 40):

وَدَوَاعِي الْوَطْءِ كَالْوَطْءِ ابْنُ كَمَالٍ.

التفسير المنير للزحيلي (1 / 258):

والذريعة: عبارة عن أمر غير ممنوع لنفسه، يخاف من ارتكابه الوقوع في ممنوع أي أن كل وسيلة مباحة أدت إلى محظور أو ممنوع فهي حرام وكل وسيلة أدت إلى مطلوب شرعا فهي مطلوبة، أي أن وسيلة الحرام حرام ووسيلة الواجب واجبة ووسيلة المباح مباحة.

اپنا تبصرہ بھیجیں