مدرسے کے اموال سے متعلق 8 سوالات اور ان کےجوابات
سوال:بندہ ایک دینی مدرسے میں مدرس ہے۔ مدرسے کے چندے سے متعلق چند صورتیں عموماً پیش آتی ہیں، جن سے متعلق آپ حضرات کی رہنمائی مطلوب ہے۔
(1) مدرسے میں بعض اوقات طلباء یا مدرسین کے ذاتی مہمان آجاتے ہیں،یا طلباء کے سرپرست حضرات آجاتے ہیں یا طلباء کو ملنے کے لیے دوسرے مدرسے سے طلباء آجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان مہمانوں کا مدرسے میں رہنا اور کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح بعض دفعہ اہل محلہ میں سے بعض تعلق والے عین اس وقت آجاتے ہیں جبکہ اساتذہ دستر خوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو ان کو بھی دعوت دیدی جاتی ہے، جبکہ وہ کھانا مدرسہ کے فنڈ سے پکا ہوتا ہے۔ تو آیا ان کو کھانے میں شریک کیا جاسکتا ہے یانہیں؟
اور اگر انتظامیہ یا مہتمم صاحب اساتذہ کو اپنے مہمان مدرسے میں ٹھہرانے اور ان کو مدرسے کا کھانا کھلانے کی اجازت دید یں تو آیا ان کو اس کا اختیار ہے یا نہیں ؟ اور ان کی اجازت معتبر ہو گی یا نہیں ؟
(۲) بعض دفعہ پرانے طلباء یا مدرسین حضرات ملاقات کے لیے آجاتے ہیں، تو ان کا مدرسے میں رہنا اور کھانا پینا کیسا ہے؟ اسی طرح جو طلباء نیا داخلہ لینے کے لیے آجائیں ان کا کیا حکم ہے؟
(۳)اگر کسی طالب علم یا استاذ کا ذاتی مہمان آجائے اور وہ اس کے لیے سب کچھ باہر سے منگوائے،مگر پکانے یاگرم کرنے کے لیے مدرسے کی لکڑیاں، بجلی یا گیس اور برتن استعمال کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟
(۴)اگر کوئی طالب علم یا استاذ اپنے ذاتی مہمان کو مدرسے کا کھانا کھلائے اور پھر مدرسے کے فنڈ میں پیسے جمع کرانا چاہے تور قم کس تناسب سے جمع کرائے گا؟
(۵)کیا مدرسہ کا کھانا اور گوشت وغیرہ مہتم یا نا ظم یا کسی مدرس اور ملازم کے گھر بھیجا جا سکتا ہے یا نہیں؟ نیز مدرسین کے وہ بچے جو مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے،آیاوہ مدرسے میں آکر کھاناکھاسکتے ہیں؟
(6) بعض اوقات کوئی شخص طلبہ کے لیے کھانا یا کوئی اور چیز بھیج دیتا ہے جو کہ کبھی صدقات واجبہ کا بھی ہوتا ہے توناظم صاحب یہ کہہ کر کہ یہ تھوڑا ہے اور تمام طلباء کو پورا نہیں ہوسکتا ، وہ کھاناوغیرہ اساتذہ کودیدیتے ہیں جبکہ بعض اساتذہ سید یا صاحب نصاب ہوتے ہیں یعنی صدقات واجبہ کا مصرف نہیں ہوتے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا مہتمم صاحب کو اس طرح کرنے کا اختیار ہے یا یہ کھانا طلباء ہی کو کھلاناضروری ہے ؟
نیز صدقات واجبہ میں سے ہونے کی صورت میں دینے والا کا ذمہ فارغ ہو گا یا نہیں ؟ اور اگر سب اساتذہ صدقات واجبہ کے مستحق ہوں تو پھر اس شخص کا ذمہ فارغ ہو گا یا نہیں؟
(۷) کیا مسجد اور مدرسے کا مشترکہ فنڈ بنا سکتے ہیں ؟ اگر بنا سکتے ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ؟ ہمارا مدرسہ ایک مسجد کے ساتھ ہے، لوگ مسجد کے لیے بھی چندہ دیتے ہیں اور مدرسے کے لیے بھی جس میں صدقات واجبہ کے اموال بھی شامل ہوتے ہیں۔ چندہ مہتمم صاحب اور ان کے ایک معتمد کے پاس آتا ہے، وہ اپنی صوابدید کے مطابق مسجد ومدرسے میں مشترک طور پر خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا مسجد اور مدرسے کے چندے کو اس طرح مشترک طور پر خرچ کرنا درست ہے یا نہیں ؟
(8)جب مسجد مدرسے کے حوالے سے ارکان شوری کا اجلاس ہوتا ہے یا مسجد مدرسے کے حوالے سےاصحاب خیر کو جمع کیا جاتا ہے تو ان کے اکرام میں بھی کچھ نہ کچھ خرچہ ہوتا ہے جو مسجد مدرسے ہی کے چندہ میں سے کیا جاتا ہے۔ آیا مسجد مدرسے کے فنڈ سے یہ خرچہ کرنا درست ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلياً
پہلے بطور تمرین چند امور سمجھ لینا مناسب ہے۔
(الف)مدرسے کے چندے میں آنے والے واجب التملیک اموال کو تملیک کے بغیر مستحق زکوۃ طلباء کی ضروریات کے علاوہ عام مصالح مدرسہ میں خرچ کرنا درست نہیں۔مثلا زکوۃ اور صدقات واجبہ کے اقوم ۔
(ب) اگر چندہ دینے والوں نے کوئی خاص چیز کسی خاص مد میں دی ہو تو اس چیز کو اسی خاص مد میں خرچ کرنا ضروری ہے۔
(ج)اساتذہ یا ملازمین کو اگر مدرسے کی طرف سے کچھ سہولیات دی جاتی ہوں تو اس کے لیے اگر مدرسہ نے کوئی ضابطہ نہیں بنایا اور چندہ دینے والے بھی ان سہولیات کے لیے چندہ وغیرہ نہیں دیتےیا ان کی طرف سے صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہیں ہے تو چندے کو ان سہولیات میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔(ماخذۃ التبویب:511/49)
(تمہید کے بعد سوالات کے جوابات بالترتیب لکھے جاتے ہیں :
1) )ذاتی مہمان یا اہل محلہ کو بلا عوض مدرسے کا کھانا کھلانا جائز نہیں ہے۔ طلباء کے سرپرست،طلباء کے ذاتی مہمان ہیں۔( ماخذۃ التبویب:244/80)اسی طرح ان سے ملنے کے لیے دوسرے مدرسے سے آنے والے طلباء بھی ان کے ذاتی مہمان ہیں ،لہذا ان کو بھی بلا عوض مدرسے کا کھانا کھانا درست نہیں۔
مہتمم یا انتظامیہ اساتذہ کو اپنے ذاتی مہمانوں کو بلاعوض مدرسے کا کھانا کھلانے کی اجاز ت نہیں دے سکتے۔ البتہ عوض کے ساتھ کھانا لینےیا کھلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے، جبکہ وہ کھانا مستحقین کے ساتھ خاص نہ ہو۔
حاشية ابن عابدين (4/490)
وما خالف شرط الواقف فهو مخالف للنص وهو حكم لا دليل عليه سواءكان نصه في الوقف نصا أو ظاهرا آہ۔وهذا موافق لقول مشایخناكغيرهم شرط الواقف كنص الشارع فیجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف آہ۔
ألإسعاف في أحكام الأوقاف (٥٦) فصل فى بيان ما يجوز للقيم من التصرف ومالا يجوز:
ویتحرى في تصرفاته النظر للوقف والغبطة لأن الولاية مقيدة به حتى لوآجر الوقف من نفسه أو سكنه بأجرة المثل لا يجوز ، وكذا إذا آجره من ابنه أو أبيه أو عبده أو مكاتبه للتهمة،ولانظر معها،وسيأتي مافيه من الاختلاف في باب الإجارة.
وفي صفحة :۱۲۲ باب الوقف على العلوية أو المتعلمين في بغداد أو المدرسة الفلانية:
وإن كان الوقف على ساكني مدرسة بعينها لا يستحق إلا من جمع بين السكنى والتفقه لأن السكنى مشروطة لفظا والتفقه مشروطة دلالة و عرفاً، والسكنى لا يتحقق فيها إلا بأن يأوى إلى بيت من بيوتها مع أثاثه وآلات السكني فإن كان يتفقه فيها نھاراً ویبيت خارجها للحراسة لا یحرم لأنه لا يخل بالشرطين وإن قصر في التفقه نہاراً واشتغل بشغل آخر فإن كان بحال يعد من متفقه المدرسة رزق والأحرم
(۲)پرانے طلباء یا پر انے مدرس اگر کسی استاذ یا مہتم صاحب سے ذاتی طور پر ملاقات کرنے یا استفادہ کرنے کے لیے آئے تو ان کی مہمان داری مدرسے کے ذمے نہیں، اور جو طالب علم کسی استاذیا مہتمم سے ذاتی طور پر نہیں بلکہ مدرسے کی مصلحت سے ملنے آئے تو وہ مدرسے کا مہمان ہوسکتا ہے،اور منتظمین مدرسہ مدرسے کی مصلحت کے مطابق اسے ٹھہراسکتے ہیں،لیکن بہر حال ز کوۃ اور صدقات واجبہ کی مد سے مہمان کی خاطر تواضع کرنا درست نہیں۔
ہاں!عام عطیات کی مد سے اعتدال کے ساتھ خاطر تواضع کی جاسکتی ہے، اسی طرح اگر خاص اس مقصد کے لیے الگ چندہ کر کےفنڈ رکھا جائے یا کوئی صاحب خیر خود یہ خرچہ برداشت کرے تو یہ زیادہ بہتر صورت ہے۔(ماخذۃ التبویب: 244/80)
نیا داخلہ لینے کے لیے آنے والے طلباء کرام کا مدرسے کے قواعدو ضوابط کے مطابق مدرسے میں قیام و طعام اختیار کرنا درست ہے۔ اور وہ آنے والے مدرسے کے قواعدو ضوابط کے پابند ہوں گے۔
(۳)اگر انتظامیہ یا شوری کی طرف سے باضابطہ اجازت ہو تو طالب علم یامدرس اپنے مہمان کے لیے کھانے وغیرہ کی اشیاء خود لاکر صرف پکانے یا گرم کرنے میں اعتدال کے ساتھ مدرسے کا گیس وغیرہ استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اگر مدرسہ کی طرف سے ممانعت ہو تو جائز نہیں۔
(4) کسی طالب علم یا ااستاذ کا ذاتی مہمان کو مدرسے سے کھانا کھلانے سے متعلق اگر کوئی ایسا ضابطہ موجود ہو جو مدرسے کی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہو تواس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر کوئی ایسا ضابطہ نہ ہو تو ضابطہ بنالیا جائے،اس وقت تک یہ کیا جا سکتا ہے کہ کھانے کی قیمتِ مثل مدرسے کے فنڈ میں جمع کروائی جائے،یعنی جتنی قیمت اس قسم کے اخراجات کی باہر کسی ہوٹل وغیرہ میں دینی پڑتی ہے اتنی ہی قیمت لازم ہو گی۔ کیونکہ وقف مال میں احتیاط لازم ہے۔
مجمع الضمانات (٢/ ٦٩٢)
المتولي لو أسكن دار الوقف بلا أجر قیل لا شيء على الساكن وعامة المتأخرين على أن عليه أجر المثل سواء أعدت الدار للغلة أو لا صيانة للوقف عن الظلمة وقطعا للأطماع الفاسدة وبه يفتى وكذا لو سكن دار الوقف بلا إذن المواقف والقيم يلزمه أجر المثل بالغا ما بلغ
(5)اگرمدرسے میں آنے والے واجب التملیک اموال کی تملیک کرائی جاتی ہو،کسی خاص مد میں دی ہوئی چیز کواسی خاص مد میں استعمال کیا جاتا ہو اور مدرسہ کی طرف سے اساتذہ اور ملازمین کومذکورہ سہولیات دینے کے لیے کوئی ضابطہ مقرر ہو اور لوگ اس کے لیے بھی ہے چندہ و غیر ہ دیتے ہوں تو اساتذہ اور ملازمین کے لیے مدرسے سے کھانا اور گوشت وغیرہ کی سہولیات انتظامیہ کی اجازت اور مدرسے کے ضابطے کے مطابق حاصل کرنا درست ہے۔ لیکن اگر یہ سہولیات زکوۃ اور صدقات واجبہ سے ہوں یا دینے والوں نے صرف طلبہ کے لیے دی ہوں یا اساتذہ اور ملازمین بلا کسی ضابطےیہ چیزیں استعمال کرتے ہوں تو ان سب صورتوں میں اساتذہ اور ملازمین کے لیے ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں۔ (ماخذہ التبویب :511/49)
مدرسین کے وہ بچے جو مرسے میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے ان کے لیے مدرسے میں آکر مدرسے کا کھانا کھانا جائزنہیں۔
(6)اگر مدرسے میں کوئی شخص کھانا یا کوئی اور چیز دیتے وقت اس بات کی صراحت کر دے کہ یہ چیز طلباء کے لیے دے رہا ہوں ،تو مہتمم صاحب کا یہ کہہ کر کہ یہ تھوڑا ہے اور سب طلباء کو نہیں پہنچ سکتا،اس کو اساتذہ کے درمیان تقسیم کردیناجائزنہیں ہے۔ بلکہ اس کو کسی مناسب ترتیب کے مطابق طلباء ہی کے در میان تقسیم کرنا ضروری ہے۔اگر سب طلبہ کو نہیں پہنچ سکتا تو بعض کو دینا بھی کافی ہے۔
اور اگر وہ چیز صدقات واجبہ کی ہو اور مہتمم صاحب دینے والے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ چیز اساتذہ کو دیدے تو مؤکل کا ذمہ فارغ نہیں ہو گا اور مہتمم صاحب کے ذمہ ضمان لازم ہو گا، اگرچہ سب اساتذہ مستحق زکوۃ ہوں،کیونکہ مہتمم صاحب دینے والے کے وکیل ہیں،اور مؤکل اگر وکیل کو اس بات کا پابند بنائے کہ میری زکوۃ (یاکوئی دوسرا صدقہ واجبہ )فلاں معین شخص یا معین فقراء کو دینا ،اور وکیل اس حکم کی خلاف ورزی کرکے وہ چیز دوسرے شخص کو دیدے تو مؤکل کا صدقہ ادا نہیں ہوتا ،اور وکیل پر ضمان لازم ہوتا ہے۔ (باستفاذہ من فتاوی محمودیہ:9/495)
الفتاوى التاتارخانية (3/228) ط: فاروقية
وفيها: سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلى الآخر مالاً فقال له هذا زكوة مالي فادفعها إلى فلان قدفعها الوكيل إلى أخر ، هل يضمن؟ قال: نعم، وله التعيين.
الدر المختار (2/269)
ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربھا ضعها حيث شئت.
حاشية ابن عابدين (۲/ ۲۹۹)
قوله ( لولده الفقير ) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه هو فقيرا أيضا لأن الصغیر یعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبی السعود، وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية، وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره اہ۔أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل وتلزم القربة كما صرحوا به وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا یملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل
حاشية ابن عابدين (٢/ 436)مطلب في الكلام على النذر
تنبیہ۔۔۔۔۔ وفي الحموي عن العمادية:لوأمر رجلا وقال تصدق هذا المال على مساكين أهل الكوفة فتصدق على مساكن أهل البصرة لم يجز وكان ضامنا۔ وفي المنتقى لو أوصى للفقراء أهل الكوفة بكذا فأعطى الوصي فقراء أهل البصرة جاز عند أبي يوسف وقال محمد يضمن الوصي اه. قلت ووجهه أن الوكيل يضمن بمخالفة الأمر وأن الوصي هل هو بمنزلة الأصيل أو الوكيل تامل۔
(7)بہتر تو یہ ہے کہ مسجد اور مدرسے کا فنڈ الگ الگ ہو، تاہم اگر مدرسہ مسجد کے تابع ہو یا مسجد مدرسہ کے تابع ہو اور دونوں کی انتظامیہ بھی ایک ہو تو ایسی صورت میں اگر دینے والے نے کسی خاص مد میں خرچ کرنے کی صراحت نہ کی ہو بلکہ صراحۃ یا دلالۃ یہ بات معلوم ہو کہ چندہ اور عطیات دینے والے حضرات اپنے دیئے ہوئے عطیات مسجد اور مدرسہ دونوں کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہیں تو ایسی صورت میں مسجد اور مدرسے کا مشترکہ فنڈ رکھنا درست ہے۔ صراحۃ اجازت کا مطلب یہ ہے کہ چندہ دہندگان چندہ دیتے وقت زبان سے اجازت دیں کہ ہمارے عطیات کو مسجد و مدرسہ دونوں کی ضروریات میں خرچ کر سکتے ہیں یا یہ کہیں کہ انتظامیہ کو ہماری طرف سے اختیار ہے کہ وہ حسب صوابدید ان کو خرچ میں لائے ۔اور دلالۃ اجازت کا مطلب یہ ہے چندہ دہندگان کو علم ہو کر ہمارے عطیات مشترک طور پر خرچ ہوتے ہیں اور وہ کچھ نہی کہتے،اور عطیات جاری رکھے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اگر دینے والا کسی خاص مد کی تعیین کر دے تو وہ رقم اسی مد میں خرچ کرناضروری ہے۔ (ماخذہ التبویب 247/38)
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق چندہ دینے والوں کی طرف سے چندہ کو مشترک طور پر خرچ کرنے کی اجازت ہو تو مدرسے اور مسجد کے چندے کو پوری دیانت داری کے ساتھ مشترک طور خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر چندہ دینے والوں کو اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ ہمارا مسجد کو دیا ہوا چندہ مدرسے میں یا مدرسے کو دیا ہوا چندہ مسجد میں خرچ ہوتا ہے تو پھر اس طرح کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ مسجد کا چندہ مسجد میں اور مدرسے کا چندہ مدرسے میں خرچ کرنا ضروری ہے۔
یہ حکم تو عام عطیات اور عام چندے کا ہے۔ جہاں تک واجب التملیک اموال کا تعلق ہے تو مسجد کے چندے میں آنے والے واجب التملیک اموال کو تملیک کے بغیر مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے۔ اور مدرسے کے چندے میں آنے والے واجب التملیک اموال کو طلباء کی ضروریات مثلاً قیام، طعام اور تعلیم میں ہی خرچ کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر ان اموال کی تملیک کی گئی ہو تو پھر ان کو مدرسے کے دیگر مصالح میں بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ لیکن مسجد میں خرچ کرنے سے پھر بھی اجتناب کیا جائے۔ اس لیے واجب التملیک اموال کے لیے الگ فنڈر کھا جائے، کیونکہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کا معاملہ انتہائی نازک ہے اور اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
(۸)اگر چندہ دینے والوں کی طرف سے صراحۃ یادلالۃ اجازت نہ ہو یا چندہ صدوات واجبہ کی مد میں سے ہو اور تملیک شدو نہ ہو تو ایسی صورت میں ارکان شوری کے اجلاس کے موقع پر یا اصحاب خیر کو جمع کر کے صدقات کی رقم سے ان کا اکرام کرنا جائز نہیں،اس سے اجتناب لازم ہے۔ اور اگر چندہ دہندگان کی طرف سے اجازت ہو اور چندہ عطیات عامہ کا ہو تو اعتدال کے ساتھ مذکورہ بالا موقع پر اکرام کرنے کی گنجائش ہے۔
تاہم بہتر یہی ہے کہ خاص اس مد کے لیے علیحد فنڈقائم کیا جائے اور اس سے کھانے وغیرہ کا انتظام کیاجائے۔ (ماخذہ التبویب 854/27)
الدر المختار (4/360)
اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه)بسبب خراب وقف أحدهما(جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهماحينئذ كشيء واحد (وإن اختلف أحدها بأن بني رجلان مسجدين)أورجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا ( لا ) يجوز له ذلك.
حاشية ابن عابدين (4/360)
قوله(اتحد الواقف والجهة )بأن وقف وقفين على المسجد أحدهما على العمارة والآخر إلى إمامة أو مؤذنه والإمام والمؤذون لا يستقرلقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الوقف متحدا لأن غرضه إحياء وقفه وذلك یحصل بما قلنا بحر عن النزارية۔ وظاهره اختصاص ذلك بالقاضي دون الناظر۔قوله(بسبب خراب وقف أحدهما) أي خراب أماكن أحدالوقفين قوله(بأن بي رحلان مسجدين) الظاهر أن هذا من اختلافهما معا أما اختلاف الواقف فيما إذا وقف رجلان وقفين على مسجد۔قوله(لا يجوز له ذلك ) أي الصرف المذكور لكن نقل في البحر بعد هذا عن الولوالجية مسجد له أوقاف مختلفة لا بأس للقيم أن غلط غلتها كلها وإن حرب حانوت منها فلا بأس بعمارته من غلة حانوت آخر لان الکل للمسجد ولو كان مختلفا لأن المعنى یجمعهماا ھ ومثله في البزازية تامل:
تنبیہ: قال الخير الرملي أقول ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى اه… …………
والله تعالی اعلم بالصواب