مستحاضہ کا موزوں پرمسح کرنے اور ہر نماز کے وقت استنجا کرنے کا حکم 

فتویٰ نمبر:2017

سوال: استحاضہ کے دنوں میں ہر نماز کے لیے تازہ وضو تو کرنا ہوگا،لیکن کیا ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر استنجا بھی کرناہوگا یاکوئی ٹشو پیپر رکھ لیں تو استنجا کے بغیر بھی صرف وضو کرکے اگلی فرض نماز پڑھیں جا سکتی ہے ؟

اور کیا چمڑے کے موزے پہن کر استحاضہ والے دنوں میں چوبیس گھنٹے گزارے جاسکتے ہیں ؟ باقی وضو اور چمڑے کے موزے پر تیمم کرکے ؟ پلیز اس سوال کا جواب بتادیں ۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

اگر مستحاضہ یا معذور اس بات پر قادر ہے کہ ٹشو رکھ لینے سے ،یاروئی وغیرہ یا اسی طرح پٹی باندھ کر خون روک سکتی ہے تو ایسا کرنا واجب ہے اور اب وہ معذور کے حکم سے نکل گئ جب بھی خون نکلے گا وضو ٹوٹ جائے گا 

البتہ اگر ایسی حالت ہے کہ اتنی دیر بھی خون نہ رکے جس سے پاکی کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہو اور ایک پوری نماز کا وقت گزر جائے تو اب یہ معذور ہے لہذا اب ہر نماز کے وقت وضو کر لے۔

معذور کے مسئلے کا تعلق استنجا سے نہیں،بلکہ ہر نماز کے وقت یہ دیکھے کہ اگر نجاست زیادہ ہے،پیڈ وغیرہ پر موجود ہے تو طہارت حاصل کر کے اور پیڈ وغیرہ بدل کر نماز پڑھنا ضروری ہو گا۔اگر نجاست نماز کے وقت کم ہے! مثلا روئی اندر فرج کے سوراخ میں رکھی ہے اور نجاست اندر کی طرف ہے تو بغیر تبدیل کیے صرف وضو کر کے نماز پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔

معذور کے لیے موزوں پر مسح کا حکم:

اگر وہ خاتون معذور کے حکم میں داخل ہے تو اس مسئلے کی دو صورتیں ممکن ہیں:

1. جتنے وقت اس نے وضو کیا اور موزے پہنے ہیں،اتنے وقت میں استحاضہ کا عذر نہیں پایا گیا ۔اس صورت میں چونکہ اس نے موزے مکمل طہارت پر پہنے ہیں،اس لیے یہ عام لوگوں کی طرح مقیم ہونے کی حالت میں ایک دن ایک رات اور مسافر ہونے کی حالت میں تین دن تین رات موزوں پر مسح کر سکتی ہے۔

2. دوسری صورت یہ ہے کہ جس وقت اس نے وضو کیا اور موزے پہنے،اس پورے وقت یا اس کے کسی حصے میں استحاضہ کا عذر پایا گیا۔اس صورت میں نماز کا وقت ختم ہونے سے جس طرح اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اسی طرح اس کا مسح بھی ٹوٹ جائے گا اور اس کو موزے اتار کر پاؤں دھونے پڑیں گے۔

ثُمَّ الْحَدِيثُ مَذْكُورٌ فِي الْهِدَايَةِ، وَظَاهِرُ الْبَدَائِعِ أَنَّهُ لَمْ يَجِدْهُ بِهَذَا اللَّفْظِ، وَذَكَرَ عَنْ سُنَنِ ابْنِ مَاجَهْ «أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ: اجْتَنِبِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ مَحِيضِك ثُمَّ اغْتَسِلِي وَتَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ وَإِ دننْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ» ثُمَّ تَكَلَّمَ عَلَى سَنَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَهُوَ فِي الْبُخَارِيِّ بِدُونِ «وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ» .

(ردالمحتار:1/299)

:کمافي مراقي الفلاح:”ومن به عذر كسلس بول أو استطلاق بطن” وانفلات ريح ورعاف دائم وجرح لا يرقأ ولا يمكن حبسه بحشو من غير مشقة ولا بجلوس ولا بالإيماء في الصلاة فبهذا يتوضؤون “لوقت كل فرض” …الخ (مراقي الفلاح ،ص:۸۰)

وفي الدُّرّ:يجب رد عذره أو تقليله بقدر قدرته ولو بصلاته موميا،وبرده لا يبقى ذا عذر بخلاف الحائض. (ج:۱،ص:۲۰۴) وفي البحر: ومتى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده، وخرج برده عن أن يكون صاحب عذر. (ج:۱،ص:۲۱۶)

وَكَذَا مَرِيضٌ لَا يَبْسُطُ ثَوْبَهُ إلَّا تَنَجَّسَ فَوْرًا لَهُ تَرْكُهُ

(وَ) الْمَعْذُورُ (إنَّمَا تَبْقَى طَهَارَتُهُ فِي الْوَقْتِ) بِشَرْطَيْنِ (إذَا) تَوَضَّأَ لِعُذْرِهِ وَ (لَمْ يَطْرَأْ عَلَيْهِ حَدَثٌ آخَرُ، أَمَّا إذَا) تَوَضَّأَ لِحَدَثٍ آخَرَ وَعُذْرُهُ مُنْقَطِعٌ ثُمَّ سَالَ أَوْ تَوَضَّأَ لِعُذْرِهِ ثُمَّ (طَرَأَ) عَلَيْهِ حَدَثٌ آخَرُ، بِأَنْ سَالَ أَحَدُ مَنْخِرَيْهِ أَوْ جُرْحَيْهِ أَوْ قُرْحَتَيْهِ وَلَوْ مِنْ جُدَرِيٍّ ثُمَّ سَالَ الْآخَرُ (فَلَا) تَبْقَى طَهَارَتُهُ.

(فُرُوعٌ) يَجِبُ رَدُّ عُذْرِهِ أَوْ تَقْلِيلُهُ بِقَدْرِ قُدْرَتِهِ وَلَوْ بِصَلَاتِهِ مُومِيًا. (ردالمحتار:1 /308 المکتبہ الشاملة ،

“وَمَعْذُورٌ فَإِنَّهُ يَمْسَحُ فِي الْوَقْتِ فَقَطْ إلَّا إذَا تَوَضَّأَ وَلَبِسَ عَلَى الِانْقِطَاعِ الصَّحِيحِ (عِنْدَ الْحَدَثِ)

فَلَوْ تَخَفَّفَ الْمُحْدِثُ ثُمَّ خَاضَ الْمَاءَ فَابْتَلَّ قَدَمَاهُ ثُمَّ تَمَّمَ وُضُوءَهُ ثُمَّ أَحْدَثَ جَازَ أَنْ يَمْسَحَ (يَوْمًا وَلَيْلَةً لِمُقِيمٍ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهَا لِمُسَافِرٍ)

وَابْتِدَاءُ الْمُدَّةِ (مِنْ وَقْتِ الْحَدَثِ) فَقَدْ يَمْسَحُ الْمُقِيمُ سِتًّا، وَقَدْ لَا يَتَمَكَّنُ إلَّا مِنْ أَرْبَعٍ كَمَنْ تَوَضَّأَ وَتَخَفَّفَ قَبْلَ الفجر فلما طلع صلي فلما تشهد احدث.

رد المحتار:١/ ٢٧١

“ودم الاستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتًا کاملاً لایمنع صومًا وصلاةً ولو نفلاً وجماعَا؛ لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر”. (الدرالمختارعلی صدر ردالمحتار:ج؍۱،ص؍۲۹۸، باب الحیض)

“والمستحاضة ومن به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا یرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض والنوافل”. (الهدایة على صدر البنایة:ج؍۱،ص؍۴۷۹،باب الحیض)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم : 

قمری تاریخ:4ربیع الاول 1440ھ

عیسوی تاریخ:12 نومبر2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں