باسمہٖ تعالی
کارساز ِعالم، ابدی وصمدی ذات ،ہر چیز میں مختار کل ،وہ جو “علی کل شئی قدیر” ہے اس کی مشیت پر کسی کا بس نہیں۔اسی نے انسان کو نائب بناکر انبیا ئےکرام علیہم السلام کے ذریعےانسانیت کی ہدایت ورہنمائی کاہردورمیں انتظام فرمایا وہی جس نے محمدعربی ﷺ کوسردارانبیاء بناکر اسلام جیساعالمگیر مذہب عطاکیا جواپنے متبعین کو افراط وتفریط سے پاک زندگی کادرس دیتاہے اس کا منشور اصلی دین ودنیا،عبادت وسیاست اورمعادومعاش میں باہم ربط پیدا کرناہے؛تاکہ آخرت ہی نہیں دنیا بھی سنور جائے۔اسی کے پیش نظردین اسلام نےحکومت وسیاست کو فضیلت گردانا، نیک سیرت عادل بادشاہ کو ظلِّ الہی اس کی عزت کو اللہ کی عزت اور اس کی ذلت ورسوائی کو اللہ تعالی کی رسوائی شمار کیا ۔
حاکم اورقاضی کے معنی:
لفظِ”حاکم “اور”قاضی “اگرچہ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ،تاہم کتب حدیث و کتب فقہ کے مطالعےاور اہل لغت کی تصریح سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دونوں مستقل عہدے ہیں۔
حاکم سے مراد”وہ منصب جس پر فائز شخص کوکسی ملک یاعلاقے کے باشندوں پر مکمل اختیار وتسلط حاصل ہواور اس کی داخلہ وخارجہ پالیسی کی ذمہ دار ی بھی اسی پر عائد ہوتی ہو”
قاضی سے مراد “وہ عہدہ جس کا حامل شخص لوگوں کے دیوانی وفوجداری مقدمات میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیاررکھتاہو”
عظیم معجزہ :
جہاں آپ ﷺ کودیگرمعجزات سے نوازا گیا وہاں آپ ﷺکا “حاکم” اور”قاضی ” ہونابھی ایک اہم ترین معجزہ ہے۔سنۃ اللہ یہی رہی کہ ہرنبی کوبتقاضاءِ زمانہ معجزات عطاکیے گئے۔ اسلوبِ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺکے زمانے سےپہلے بین الاقوامی اور بین الممالک تعلقات نہ ہونے کے باعث سابقہ انبیاءعلیہم السلام عالمگیر اور بین الاقوامی حیثیت کے حامل نہ تھے؛ان کی تعلیمات محض اپنی قوموں کے لیے تھیں۔شعیب علیہ السلام”قوم مدین “اور موسیعلیہ السلام “بنی اسرائیل ” کی طرف ایک ہی زمانےمیں نبی بناکر بھیجے گئے ۔
رفعِ عیسی علیہ السلام کے بعدقوموں اور ممالک میں تعلقات بڑھنا شروع ہوئے عہد نبوی ﷺ کے آغاز پربین الاقوامی تعلقات کا عبوری دور اس حد کوپہنچ چکا تھا کہ مہمات پسند عرب ایک طرف حبشہ مصر اورشام کو تو دوسری طرف چین ،ایران اورہندوستان کو کاروان تجارت لے کرجانے لگےتھے۔ان حالات میں انسانیت کوایسے راہ نما کی ضرورت تھی جو حاکم(سیاستدان ) ہونے کے ساتھ ساتھ عالمگیر بھی ہو ؛ تاکہ ہر قسم کی عالمی گتھیاں آسانی سے سلجھائی جاسکیں۔
آپ ﷺ کی ولادت سے پانچ سال پہلے مرنے والے رومی شہنشاہ “جسٹی نین ” نے رومی قوانین کی تدوین کا کام انجام دے کر دنیا کو ایک چیلنج دیاکہ اس سے بہتر کوئی قانون لاؤ!آپ ﷺ نے بطور “قاضی”عرب کےبے مہار معاشرے میں جن قوانین کے ذریعےعدل وانصاف کورائج کیا رہتی دنیا تک ان کی نظیر پیش کرنا ممکن ہی نہیں ۔
حضور ﷺ کی حاکمانہ (سیاسی )زندگی کی ابتدا:
آپ ﷺ نےقبل ازہجرت ،مکی زندگی میں ہی سیاست کی طرح ڈال دی تھی ۔اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہجرت حبشہ ہے ، جس کی بدولت اسلام ایشیاء سے افریقہ تک پہنچ گیا۔دوسری کڑی بیعت عقبہ ثانیہ ہے۔ “ہر حال میں سننا اور اطاعت کرنا ہمارا شیوہ رہے گا” مسلمانوں سےلیا گیایہ اقرارایک عظیم اور مثالی سلطنت کی خشت ِاول ثابت ہوا۔اس موقع پراسلام لانے والوں کے مطالبے کے باعث آپ ﷺ نےحضرت مصعب بن عمیرعَبدَرِی رضی اللہ عنہ کو اپناسیاسی سفیربناکریثرب روانہ کیا،جب ان کی کوششیں ثمر آور ہوئیں تو آپ ﷺنے بیعت عقبۃ ثالثہ کے بعد ہجرت کرتے ہی باقاعدہ سیاست کا آغاز فرمادیا۔
سیاست رسولﷺکے نمایاں پہلو :
ویسے توآپ ﷺ کی حیات طیبہ قدم بقدم کامیابیوں سے معمور ہے ،جن کااحاطہ انسانی دسترس سے باہر ہے یہاں صرف آپﷺکی سیاسی زندگی کے نمایاں پہلو اور ان کے ثمرات ذکر کرنے پراکتفا کیا جاتاہے۔
- داخلی استحکام :
ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کواپنا مسکن بنایا تو کفار مکہ کی ایذا رسانیوں کے باوجود انتقام کے جو ش میں اہلِ مکہ پر حملہ آور نہیں ہوئے بلکہ اعلی درجے کی دانائی وعقل مندی سے کا م لیتے ہوئے مسلمانوں کا دفاعی نظام مضبوط کرنے کوترجیح دی ،مدینہ منورہ میں “وفاقی شہری مملکت” کا قیام عمل میں لاکر مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی ۔اورمہاجرین وانصار میں بھائی چارہ قائم کرنے اور یہود سے سیاسی سمجھوتے کےلیے پچاس دفعات پر مشتمل ایک دستور مرتب کیا۔
- دشمن کی جاسوسی ومعاشی استیصال :
داخلی استحکام سے فارغ ہوکر “حفظ ماتقدم “کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے کفار مکہ کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کی تدبیر یوں فرمائی کہ مدینے کے جنوب مغربی ساحل پر واقع قبائل “بنو ضمرہ ، جہینہ ، بنو غفار ،مزینہ اوراشجع” وغیرہ جوقریش کے تجارتی قافلوں کی گذرگاہ تھےان سے سیاسی معاہدات شروع کردیے تاکہ قریش کا معاشی استیصال ہو اور ان کی نقل وحرکت سے باخبر رہاجاسکے۔آپ ﷺ کے اس سیاسی عمل نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ کا میاب خارجہ پالیسی داخلی استحکام کے مرہون ِ منت ہوتی ہے۔
- خارجہ پالیسی :
آپ ﷺ کی خارجہ سیاست کا شاہ کار صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہے ۔ سن چھ ہجری میں مدینہ منورہ شمال وجنوب سے اہل مکہ اور اہل خیبر کے نرغے میں تھا ۔یہ دونوں مسلمانوں کے خلاف ایک ہو چکے تھے ۔بیک وقت دونوں سے مڈھ بھیڑجان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا ؛ کسی ایک کی سر کوبی کی لیے دوسرے فریق سے صلح کرنا ناگزیر تھا ۔اہل خیبر کی نسبت اہل مکہ میں معاہدہ کی پاسداری زیادہ تھی ۔ آپ ﷺ نے کفارمکہ کو ترجیح دیتے ہوئے حدیبیہ کے مقام پر ان کی وہ شرائط بھی قبول فرمائیں جو بظاہر مسلمانوں کےموافق نہ تھیں،آپ ﷺ کی خارجہ پالیسی کا یہ وہ روشن باب ہے جسےچشم فلک نے فتح مبین میں بدلتے دیکھا۔آپ ﷺ کے اس طرز عمل کےپس پردہ پیغام یہ ہے کہ بیک وقت کئی محاذوں سے اجتناب کیا جائے اور اس دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا یا جائے جس سے اندیشہ ِ نقصان کم اور نفع کی امید زیادہ ہو۔
- عام معافی نامہ :
فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺکے تاریخ ساز الفاظ : ” لا تثريب عليكم اليوم”آج تم پر کوئی الزام نہیں تم آزاد ہو ” سیاسی فراست کا ایسا مظہر ہیں جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے،اسی کا ثمر ہ ہے کہ مکہ مکرمہ تادم تحریر مسلمانوں کے زیر تسلط ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت رہے گا۔
- سفارتی مہم کا آغاز :
خیبر اور مکہ کے زیر ہوتے ہی آپ ﷺ نے مملکت اسلامیہ کی حدوود بڑھانے اور آفاقی دین لوگوں تک پہنچانے کے لیے سفارتی مہم کا آغاز کیا ۔ سلاطین کے نام دعوتی خطوط ارسال کیے،جس سے اسلامی سلطنت کا دائرہ کا ر وسیع ترہوتاچلاگیا۔
- عوام سے رابطہ :
آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے مختلف قبائل سے رشتہ داری قائم فرمائی ۔ کامیاب حکمران کا اپنی رعایا سے رابطے میں رہنا ضروری ہے ،اوررشتہ داری سے زیادہ رابطے کی کوئی مؤثر صورت ہو نہیں سکتی ۔
حضور ﷺ کی داخلی وخارجی سیاست کے زَرِّیں اصول :
دنیا عالم اسباب ہے ،یہاں انبیاء کرام کو اپنے مقدس کاز میں” کن فیکونی “کامیابیاں نہیں ملیں ،بلکہ انہیں بھی اسباب اختیار کرنا پڑے۔ آپ ﷺ نے سیاسی زندگی میں وہ کون سے اسباب اختیار کیے جن کی بدولت کامیابی آپﷺ کے قدم چومتی رہی؟!چند ایک ملاحظہ فرمائیے:
- دشمنوں کا دل موہ لینا:
سورۃ التوبۃ آیت نمبر 60 میں مال کے خرچ کی مَدَّات میں ایک مَدّ” وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُم”ہے :”کسی علاقے یا ملک کے باشندوں پر مسلم حکمران کا اس لیے مال خرچ کرنا کہ وہ اسلام کی طر ف راغب ہوجائیں “۔فتح مکہ سے قبل قحط سالی کے زمانے میں آپ ﷺ نے پانچ سو اشرفیوں کی خطیر رقم غریب ونادار لوگوں میں تقسیم کر واکر دشمنوں کے دل میں اپنی جگہ بنالی۔
- عہد وپیمان کی پاسداری :
صلح حدیبیہ کے عہد نامہ میں ایک شق یہ تھی کہ اگر مکہ کا کوئی باشندہ مسلمان ہوکر “مدینہ ” آئے تو اسے اہل مکہ کے سپردکردیا جائے ۔ بظاہر اس شرط کی پاسداری محال تھی، اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس پر عمل کر تے ہوئے “ابو جندل بن سہیل ” کو صبر کی تلقین فرماکر کفار کے حوالے کردیا۔
- اقلیتوں کی خودمختاری :
یہودی زانی اور زانیہ کا مقدمہ جب اسلامی عدالت میں پیش ہوا تو آپ ﷺ نے یہود کی مذہبی خود مختاری کا لحاظ رکھتے ہوئے “توریت” کے مطابق ان پرسزا نافذ کی ۔
- متفقہ بات کی دعوت دینا
سیاسی ہم آہنگی اور بین الاقوامی معاملات کی خوشگواری کےلیےآپ ﷺنے اپنے اور دوسری اقوام کے “مشترکہ امور ” کو مد نظر رکھتے ہوئے دعوت ِ دین کا آغازکیا۔
- شجاعت وبہادری :
سیاسی کا میابیوں کے لیے مو قع شناسی ضروری ہے ،آپ ﷺ نے بھی موقع شناسی کے پیش نظر سیاسی معاہدات میں جہاں شفقت ،نرمی اور حسن سلوک کا برتاؤ کیا ،وہاں بوقت ضرورت سختی وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا رعب بھی قائم رکھا ۔غزوہ خندق کے بعد فتح خیبر میں یہودکی ریشہ دوانیوں کی بناپر ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور منافقین کی مسجد ضرار کو نیست ونابودکرنااس کاواضح ثبوت ہے۔
نبی اکر م ﷺ بحیثیت قاضی
تعلیمات الٰہیہ میں قضاء” کلیدی” منصب ہے ،قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ سابقہ انبیاء میں حضرت داؤد وسلیمان اور حضرت موسی اس عہدہ پر براجمان رہے۔
اسلام کے فلسفہِ قضاء کا نچوڑ”عدل وانصاف کا قیام ،ظالموں ، غاصبوں کو سزا دے کر بنی نوع انسان کے حقوق کا تحفظ اور جابر لوگوں کو حق وانصاف کی قوت اور اقتدار کے سامنے جھکانا”ہے۔منصب قضاء کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ” یہ ان مسائل میں سے ہے جن پر قرآن کریم نے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کے بعد سب سے زیادہ زور دیا ہے ” کیونکہ منصفانہ قضاء کے بغیر نظام مملکت اندھیر نگری ہے ۔
بعثت سے قبل ہی آپ ﷺ اپنی اعلی صفات کی بنیاد پر لوگوں کے ہاں اس منصب کے اہل ہوچکے تھے۔حجر اسود کی تنصیب کا حکیمانہ فیصلہ ،جس سے تمام قبائل خونریزی سے بچ گئے اس کا منہ بولتاثبوت ہے ۔نبوت کے بعد جب آپ ﷺ اس منصب پر فائز ہوئے تو تائید ایزدی شامل حال رہی ،جس کی بدولت تہذیب وتمدن سے کوسوں دور عرب کے اجڈ ،ان پڑھ اوربے لگام قبائل کو آپ ﷺنے قانونی دھارے میں لاکھڑاکیا ۔ ان کی ایسی تربیت کی کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کے عدل وانصاف کے کارناموں کو فراموش نہیں کرسکتی۔
رسول اللہﷺ کے عدالتی فیصلے :
رسول اللہ ﷺ نے اپنی دس سالہ حکومت میں معاشرے میں رونما ہونے والے ہر قسم کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کرکے اسے واجب التعمیل قراردیا ۔آپ ﷺ کی حیثیت محض قاضی ہی کی نہیں بلکہ شارع اور مقنن کی بھی ہےاس لیے آپ کے فیصلوں کوناقابل ترمیم قانون کی حیثیت حاصل ہے ۔ خلفاء راشدین ، صحابہ وتابعین غرض امت کے مقتدر طبقات نے عدالتی نظام میں آپ ﷺ کے فیصلوں کو مشعل راہ بناتے ہوئے انہیں وہی حیثیت دی جو قرآن کریم کی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں جتنے فیصلے کیے ان میں سے اکثر کتبِ احادیث وفقہ میں جابجا ہیں ۔اپنے وقت کے مشہورمایہ ناز فقیہ “ابن الطلاع قرطبی” (متوفی 497ھ )اور”شیخ ظہیر الدین مرغینانی حنفی” (متوفی 501ھ) نے “اقضیۃ الرسول ﷺ”کے عنوان سے ان فیصلوں کو مستقل کتاب میں جمع کرکے امت پر احسان عظیم کیا ۔اول الذکر فقیہ کی کتاب مہیا ہے ،جبکہ مؤخر الذکر کی کتاب حوادث زمانہ کا شکار ہوگئی۔
ابن الطلاع ؒنے اس انسائیکلو پیڈیا میں سماج کے مختلف پہلو:حدود، قصاص ، دیت،جہاد،نکاح،طلاق،بیوع ،فیصلہ کرنے کے آداب ، میراث ، ہدیہ اور آزادی سے متعلق آپ ﷺ کے 280 فیصلے جمع کیے ۔محقق ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے اس پر67 فیصلوں کا استدراک کرکے سونے پر سہاگہ کا کردار اداکیا۔ اس وقت امت کے سامنے اسلامی قانون کے مُقَنِّنِ اول کے 347 عدل وانصاف سے معمور فیصلوں کا مجموعہ ہے ،جوقدم قدم پر انسانیت کے لیے راہبر وراہ نما ہیں ۔ بقول قتیل شفائی :
؎ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
قضا ء کے زَرِّیں اصول :
رسول اللہ ﷺ نے منصب ِ قضاء کے کچھ سنہری آداب ا وراصول وضع کیے ہیں۔ فیصلہ کرتے وقت انہیں ملحوظ خاطررکھنا چاہیے،تاکہ فلسفہِ قضاء”عدل وانصاف کا قیام”بحسن و خوبی ہوسکے۔
- غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا ماہرین نفسیات کے مطابق غصہ خون کے کھولنے سے پیداہوتاہے ،جس کی وجہ سے آنکھوں پر جذبات کا پردہ پڑنے سے انسان حق وباطل میں تمیز نہیں کرپاتا۔
- شدیدبھوک اور پیاس کی حالت میں فیصلہ نہ کرنااس لیے کہ یہ آدمی کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے معاملہ فہمی میں باریک بینی نہیں رہتی ۔
- فریقین کی بات سنے بغیر فیصلہ نہ کرنااس لیے کہ فریقین کی بات سن کرہی مقدمہ کی نوعیت سمجھ میں آئے گی اور فیصلہ کرنے میں مدد ملی گی۔
- نشست وبرخاست دیکھنے ،اشارہ کرنےاور باتکرنےمیں فریقین میں برابری کرنا۔
- فیصلہ کرنے میں امیر ،غریب اور آزاد وغلام کے درمیان مساوات کرنا۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو قضاء کی روح ہی باقی نہیں رہےگی۔
رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ قاضی:
بحیثیت نبی آپ ﷺ کے گوناگوں فرائض منصبی تھے ،دوسری طرف آپ ﷺکی سیاسی جدوجہد کے ثمرات کی بدولت سلطنت اسلامیہ کا دائرہ کار انتہائی وسیع ہوچکا تھاہر علاقے کے باشندوں کے مقدمات کی سماعت ازخودکرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔عہدہ قضاء کی اہمیت کے پیش نظر آپ ﷺ نے ہر علاقے کے لیے اپنے جانثار صحابہ اس عہدہ پر مقرر کیے اور وقتا فوقتا انہیں تربیت دیتے رہے ۔
ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی حفظہ اللہ کی کتاب”عہد نبوی میں صحابہ کی فقہی تربیت ” وہ گوہر نایاب ہےجس میں رسول اللہﷺ کے تربیت یافتہ تمام فقہاء اور قاضیوں کا عکس نظر آتاہے۔ چند صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعینکے نام جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں قضاء کا عہدہ سونپاملاحظہ ہوں :
حضرت عمر بن الخطاب ،علی کرم اللہ وجہہ معاذبن جبل یہ دونوں یمن کے قاضی مقرر کیے گئے۔العلاء بن الحضرمی قاضی بحرین،معقل بن یسار ،عمرو بن العاص القرشی ،عقبہ بن عامر،حذیفہ بن یمان عبسی قاضی یمامہ،عتَّاب بن اُسید ابوموسی اشعری قاضی یمن، ابی بن کعب ، زید بن ثابت قاضی مدینہ اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سر فہرست ہیں۔
دس سال کےاس قلیل عرصہ میں عدل وانصاف کے پیکر، عالمگیر نبی محمد عربی ﷺ ، جن کی عدالت میں لخت جگرفاطمہ رضی اللہ عنھا اور ایک اجنبی یکساں ہیں ۔اپنی بے مثال سیاست اورنرالی قضاء سے عرب کے نراج معاشرے میں بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ایسی مستحکم وبے نظیر اسلامی مملکت قائم کی جس کاطرہ امتیازعدل وانصاف رہا۔
آپ ﷺکی سیاست وقضا ء کے سنہری اصول رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں ،ان کی روشنی میں ہردور کے مفکرین اپنی راہیں متعین کرسکتے ہیں۔ بقول شاعر:
؎ خرد کی شمع افروزی جنوں کی چارہ فرمائی
زمانے کو اسی امی کے صدقے میں سمجھ آئی
- السنۃ لابن ابی عاصم : 2/492،باب فی ذکر فضل تعزیز الامیر وتوقیرہ ،ناشر : المکتب الاسلامی۔
- اس لیے کہ تمام محدثین اور فقہاء نے “کتاب القضاء ” یا” کتاب اقضیۃ رسول اللہ ﷺ” کا عنوان قائم کیا ہے ،کسی نے بھی “کتاب الحاکم ” کا عنوان باندھ کر “قضاء ” مراد نہیں لیا۔
- تاج العروس من جواہر القاموس : 31/510، باب المیم ، مادہ ( ح ک م )ومعجم اللغة العربية المعاصرة: 1/538، مادہ : “ح ک م”۔
- معجم اللغة العربية المعاصرة: 3/1830، مادہ : “ق ض ی” ، اصطلاحات العلوم الاسلامیۃ للتھانوی : 5/1234۔
- رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی : 23۔
- رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی : 24۔
- سیرۃ ابن ہشام : 1/280 ، ذکرالہجرۃ الاولی الی ارض الحبشۃ ۔
- مسند احمد بن حنبل : 3/322 ، حدیث نمبر : 14496،مسند جابر بن عبدا للہ۔
- “السیرۃ النبویۃلابن ہشام “: 1/435-438 ۔
- “سیرۃ ابن ہشام “: 1/50-504 ، 544۔
- “االطبقات الکبری لابن سعد” : 1/264،4/352، 1/264 ۔
- شرح السیر الکبیر : 1/298 ، باب مایحصل بہ الامان۔
- سورۃ الفتح آیت نمبر 1۔
- شرح معانی الآثار : 3/325۔
- “الطبقات الکبری” : 1/258 ، ذکر بعثۃ رسول اللہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک یدعوہم الی الاسلام۔
- رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی : 312-321۔
- الاحکام السلطانیۃ : 1/132 ، فصل فی ولایات الصدقات۔
- مبسوط للسرخسی : 10/91،92۔
- الطبقات الکبری ٰ لابن سعد : 2/97 ، غزوۃ رسول اللہ ﷺ الحدیبیۃ ۔
- صحیح بخاری : 4/206۔
- سورۃ آل عمران آیت نمبر 64۔
- صحیح مسلم : 5/185، باب غزوۃ خیبر ۔
- سورۃ التوبۃ آیت نمبر 107۔
- سورۃ الانبیاء آیت نمبر 78، 79 میں حضرت داوود اور سلیمان علیہماالسلام کے اس منصب کو بیان کیا گیاہے ۔اورسورۃ القصص آیت نمبر 15 میں حضرت موسی علیہ السلام کے اس منصب پر فائز ہونے کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔
- سورۃ النساء آیت نمبر : 58۔
- “سیرۃ ابن اسحاق ” : 1/108، حدیث بنیان الکعبۃ۔
- جیساکہ قرآن کی تقریبا بارہ آیات سے معلوم ہوتاہے :النساء :59، 65، 80، 105 ، الاعراف: 158، الحشر: 59،النحل : 44، 46، النجم : 4 ، احزاب : 36، النور: 64۔ اور کئی احادیث بھی اس پر شاہد ہیں ۔
- “اقضیۃ الرسول لابن الطلاع” ، ادارہ معارف اسلامی۔
- سنن الترمذی : 3/612 ، باب ماجآء لایقضی القاضی وہو غضبان۔
- رسول اللہﷺ کے فیصلے : 1/38۔
- المعجم الاوسط للطبرانی : 5/36۔
- سنن الترمذی : 3/11،باب ما جاء في القاضي لا يقضي بين الخصمين۔
- اخبار القضاۃ لوکیع : 1/112، تسویۃ ابی ہریرۃ بین الخصوم۔
- سنن الدار قطنی : 4/131، کتاب فی الاقضیۃ والاحکام۔
- صحیح بخاری : 8/104،کتاب الرقاق۔
- عہد نبوی میں صحابہ کی فقہی تربیت : 157۔التراتیب الاداریۃ : 1/221،قضاۃ رسول اللہ ﷺ۔
- سنن ابی داود : 6/426،باب فی الحد یشفع فیہ۔