نامزد  کرنے کا حکم

فتویٰ نمبر:418

کیا فرماتے  مفتیان  دین  متین  مندرجہ ذیل مسئلے کے حل  کے سلسلے  میں کہ :

ہم سب  تین بہن  بھائی  ہیں ( دو بھائی  اور ایک بہن )  اور والدہ محترمہ  حیات  نہیں ہے والد محترم  کےا نتقال  کے وقت  دو پلاٹ  والد محترم کی ملکیت   میں تھے  ایک پلاٹ  کے بارے  میں بڑے بھائی  کا دعویٰ ہے  کہ والد صاحب  نے اپنی زندگی  میں چھوٹے  بھائی کے نام   کردیاتھا اور دوسرے  پلاٹ  کے بارے  میں دعویٰ  ہے کہ  یہ میرا ہے ، جبکہ  اس دعویٰ  کے کوئی  شرعی گواہ  نہیں ہے ۔

 میں جب  اپنا حق بڑے بھائی  سے مانگتی  ہوں تو وہ کہتا ہے  کہ میرے پلاٹ  میں تمہارا حق  نہیں بنتا چھوٹے  سے لے لو۔حالت  مرض  میں باپ  نے اپنے پوتے  اور پوتی  کو بطور قرض  کچھ دیاتھا جو کہ بعد  میں وہ لوگ مکر  گئے ۔

حل طلب :                        

1۔  والد صاحب  کی ملکیت  میں موجود جائداد  کی شریعت  کے مطابق تقسیم  فرمادیجئے ۔

2۔اگر والد صاحب  نے اپنی  زندگی  میں ایک پلاٹ   چھوٹے بھائی  کے نام کردیاتھا  تو چھوٹے  بھائی  کے اس پلاٹ  پر قبضے  کی صورت  میں  اور قبضہ  ہونے کی صورت  میں اس کی شرعی  حیثیت  کیا ہوگی ؟

3۔  ایک پلاٹ  کے بارے  میں اگر بڑے  بھائی کا دعویٰ  ہے کہ وہ اس کا ہے  تو اس کا دعویٰ   کب تسلیم  کیاجائے گا ؟

4۔اگر دعویٰ  کے کوئی  شرعی  گواہ  نہ ہو  اور بڑے  بھائی  کا قبضۃ  ہو تو اس صورت میں  کیا حکم  ہے ؟

5۔اگر والد صاحب  نے حالت مرض  میں پوتے  اور پوتیوں   کو بطور قرض  کچھ دیا تھا  جو کہ  وہ مکر گئے  تو کن صورتوں  میںوہ وصول  کیاجاسکتا ہے  ؟

6۔ اگر  میرا حق بنتا  ہے اور  وہ مجھے کچھ  نہیں دیتے  تو اس صورت  میں کیا ہوگا   ؟

وضاحتیں :

1۔ بڑے  بھائی کے نام   بالکل نہیں کیا نہ قبضہ  دیا تھا ۔ چھوٹے بھائی  کے نام کیا تھا لیکن  یہ کہہ کر بہن  کو اس کا حصہ  دینا البتہ  قبضہ  اس کو بھی  نہیں دیا۔

2۔ یہ دونوں پلاٹ  اسی مکان  میں ہیں  جس میں والد صاحب  رہتے تھے ۔

 جواب

 1،2،3،4،6۔۔۔۔۔۔واضح رہے   کہ  شرعا  ایک چیز دوسرے کے صرف  نام کردینے  سے وہ چیز دوسرے  کو ہبہ  اور گفٹ  نہیں ہوجاتی  بلکہ اس کے لیے شرعی  اصولوں  کے مطابق اس چیز   کا قبضہ  دینااور جس  کو دی  ہے اس کا قبضہ  کرنا بھی ضروری  ہے۔ شرعی  طور پر  ہبہ  میں قبضہ  کا طریقہ  یہ ہے کہ ہبہ  کرنے والا  وہ  چیز اپنے  یا اور کسی  کے مملوکہ  سازوسامان  سے خالی  کر کے  دوسرے  کے حوالے  کرے ۔نیز اگر  وہ چیز قابل تقسیم ہو تو اسے اپنی یا دوسرے  کی ملکیت   سے ممتاز اور جدا کر کے  اور باقاعدہ  تقسیم  کر کے دے  ۔ ورنہ  ہبہ صحیح نہیں  ہوتا اور  وہ چیز بدستور  مالک کی ملکیت  ہی میں رہتی ہے  ۔

صورت  مسئولہ میں سوال اور  اس کی وضاحتوں سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ والد  مرحوم نے چھوٹے بیٹے کے نام  ایک پلاٹ  کردیاتھا جس  پر تینوں  ورثا کا اتفاق  رائے ہے ۔ بڑے  بھائی کے نام دوسرا پلاٹ  کیا تھا یا نہیں ؟ اس میں  ورثاء کا اختلاف ہے ۔ لیکن مذکورہ  بالا شرعی   اصولوں   کے مطابق والد مرحوم  نے قبضہ  کسی کو بھی نہیں دیا کیونکہ  والد اور  بیٹے اکھٹے  ہی  ان میں رہتے  رہے ۔لہذا یہ پلاٹ والد مرحوم کی زندگی میں  کسی بیٹے  کی ملکیت   نہیں   ہوئے بلکہ   والد مرحوم  بدستور   اس  کے تن تنہا مالک  تھے اور اب    ان کی وفات کے بعد  ان کے شرعی  ورثاء  میں یہ پلاٹ  تقسیم ہوں گے ۔

والد مرحوم   کے واقعتا ً اگر یہی  تین ورثاء  ہیں جو سوال  میں مذکور   ہیں اور کوئی ان کا  شرعی وارث  نہیں ہے   تو ان پلاٹوں  کے 5 برابر حصے  کئے جائیں گے  جن میں سے ایک حصہ  بیٹی کا  اور دو دو حصے  بیٹوں  کو ملیں گے ۔ فی صد کے اعتبار سے  بیٹی  کا  بیس فی صد  اور بیٹوں کا  چالیس  فی صد  حصہ ہے  ۔جیسا کہ  ذیل کے نقشے  میں دکھایا گیا ہے ۔

 

عددی حصہ

فیصد حصہ

بیٹی

1

٪20

بیٹا

2

٪40

بیٹا

2

٪40

بھائیوں  پر شرعا  یہ فرض  ہے کہ  وہاپنی  بہن  کو اس کا بننے  والا پانچواں   حصہ  جلد از جلد دے دیں  ! میراث  کی تقسیم   میں ابھی تک  جوتا خیر  ہوئی اس پر   صدق دل   سے توبہ استغفار  کریں،ورنہ  وہ مسلسل  گناہ گار  اور آخرت  کی پکڑ  کے حق دار   ہوں گے ۔ بہن  کو یا تو پلاٹوں  کا ہی  پانچواں  حصہ دیں  یا  پانچوے   حصے کی موجودہ  وقت  کے حساب  سے قیمت ادا  کریں  !

 قال العلامۃ  الحصکفی ؒ  : “وشرائط  صحتھا  فی  الموھوب  ان یکون  مقبوضا، غیر  مشع ، ممیزا، غیر  مشغول۔ ” (شامیۃ :4/567 ش)

وقال  :  ” وملک   بالقبول  بلا قبض  جدید ، لو الموھوب  فی ید  الموھوب لہ ”  ( شامیۃ : 4/571)

5۔ اگر  آپ کے   پاس قرض  لینے کے گواہ  موجود ہوں  تو ان کی گواہی  سے وہ   قرض وصول  کیاجاسکتا ہے ۔ اگر آپ  کے پاس گواہ نہ ہوں  اور پوتے  پوتیاں   اس پر   قسم اٹھانے  کو تیار  نہ ہوں   کہ انھوں نے  قرض  نہیں لیا تو اس صورت میں بھی   شرعی فیصلے  سے وہ قرض وصول  ہوسکتا ہے ۔ البتہ  گواہ  بھی نہ ہوں  اور پوتے   پوتیاں  شرعی طریقے  سے اپنی بات  پر قسم  بھی اٹھالیں  تو یہ قرض  وصول نہیں ہوسکتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں