ناپاکی کی تباہ کاریاں 

 مرتب : محمد انس عبدالرحیم

 میرے محترم  دوستو! قرآن پاک کی جو آیت کریمہ تلاوت کی  گئی ہے،اس  میں اللہ جل  شانہ نے ساری انسانیت کو خطاب  فرمایا ہے کہ ” لوگو تنمہارے پاس ایک نصیحت آئی ہے جو تمہارے  پالن ہار کی طرف سے آئی ہے ” ( یونس 57) یعنی یہ نصیحت اس اللہ کی طرف سے آئی ہے جس کے ہر آن ہر لحظہ  تم محتاج ہو۔ (علماء نے یہ بتلایا ہے کہ رب کہتے  اس کو ہیں جو ابتداء سے لے کرانتہا تک ہم ہر آن ہر گھڑی اللہ کے محتاج ہیں اور کوئی ایک گھڑی بھی ہم اللہ کی ربوبیت سے نکل نہیں سکتے۔

 گویا اللہ جل شانہ کہنا یہ چاہتےہیں کہ بندو! تم ہر گھڑی ہر لحظہ  میرے محتاج ہو اور میں تمہاری پرورش کرتا ہوں،نمہاری دیکھ بھال  کرتا ہوں ،تو پھر تم  میرا شکر ادا  کیوں  نہیں کرتے  ؟ تمہیں یہ چاہیے کہ ہر آن میرا شکر ادا کرو،ہر  گھڑی میرا شکر اداکرو،اس لیے کوئی گھڑی  زندگی کی ایسی نہیں ہونی چاہیے  کہ بندہ اللہ کا شکر ادا نہ کر رہا ہو۔

 سب سے زیادہ شکر  گزار :

 یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی ساری زندگی اس کا نمونہ تھی،اللہ کے نبی  کی زندگی کی کوئی گھڑی  بھی ایسی نہیں تھی جس میں اللہ کاتعلق نبی کے دل سے ہر حال میں ہوتا ہے اور نبی ہر آن اپنا  تعلق اللہ سے رکھتا ہے لیکن اللہ کے نبی کی زبان مبارک بارے میں   حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں  : ” کہ آپ  اللہ کا ذکر  کل   حین  یعنی  ہر گھڑی  کیا کرتے تھے ۔” کوئی  گھڑی   زندگی کی ایسی   نہیں تھے اللہ کے نبی کی کہ اللہ  کو یاد نہ کر رہے ہوں۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ   ہم   ہوں یا اللہ کے نبی ہوں۔دنیا  کی کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ ہر آن اللہ  کی محتاج ہے،ہر آن اللہ جل شانہ کے اس پر احسانات  بھی بڑے ہوتے ہیں۔اس لیے وہ اللہ کا سب سے زیادہ شکر  گزار بندہ  بنتا ہے  اور اللہ کے سب سے  زیادہ احسانات  اپنے آخری  نبی حضرت   محمد ﷺ  پر ہیں ۔اس لیے سب سے  بڑے شکر گزار  اللہ کے آخری نبی   ﷺ ہیں۔

اللہ کے نبی   ﷺ فرماتے ہیں : “اے   اللہ میں نے آپ کی تعریف  کی ہے۔لیکن ایسی  تعریف   کہ آپ کا حق ادا نہیں ہوسکتا  لیکن   دنیا کا کوئی انسان  آپ کی تعریف  کرے اسی طرح   اللہ کی مخلوق میں سے کوئی  تعریف کرے   تو فرمایا  آپکا حق ادا ہوسکتا ہی نہیں  “

معلوم ہوا کہ اللہ   کی تعریف   تو اس قدر  ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ خود فرمارہے ہیں کہ میں  آپ کی  تعریف  کا حق ادا نہیں کرسکتا، تو پھر  ہم  جیسے لوگ اللہ کی تعریف کا حق ادا کرسکتے ہیں ؟

لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسا بھی میرا حق اد کرنے کی کوشش کروگے، ہم  جیسی بھی ان کی تعریف   کریں،لولی لنگڑی۔الٹی سیدھی  کہ جس سے حق ادا نہ ہوسکے ۔لیکن  یہ محض ان کا کرم ہے فضل  ہے کہ وہ ہماری ہر تعریف    کو قبول  فرمالیتے ہیں ۔

اس لیے اللہ جل شانہ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمادیں کہ ہم  ہر آن  اللہ کی تعریف  کرنے والے  بن جائیں ، ہر گھڑی   اللہ جل شانہ  کا شکر ادا کرنے  والے بن جائیں۔

 ہر لمحہ   یا د الٰہی  :

بعض علماء   نے یہ بات  لکھی ہے  کہ اللہ کے نبی ﷺ ہر لمحہ  اللہ کی تعریف  کیا کرتے تھے ۔صرف ایک ہی موقع   آتا تھا  کہ آپ اللہ کی  تعریف   نہیں کیا کرتے تھے  ،وہ موقع  یہ ہوتاتھا کہ اللہ کے نبی ﷺ بیت الخلاء  میں ہیں  اس وقت  ادب  کا تقاضا یہ تھا کہ  گندگی  کی جگہ  اللہ کا نام  نہ لیاجائے ۔اس لیے   اس ادب  کو پورا  کرنے کے لیے  اللہ کے نبی  جب بیت الخلاء  میں جاتے  اس وقت اللہ کی تعریف نہیں کیا کرتے تھے ۔لیکن  وہ وقت  کتنا ہوتا ہے؟ 10 سے 15 منٹ  ،اتنا وقت   ہوتاا س سے زیادہ  وقت  نہیں  ہوتا۔لیکن  احادیث کی کتابوں  میں آتا ہے  کہ اللہ کے نبی  جب باہر تشریف  لاتے تھے  بیت الخلاء   وغیرہ یا جہاں   بھی آپ   قضائے حاجت  کے لئے جاتے تھے  وہاں  سے جب باہر تشریف   لاتھے تھے  تو فرماتے غفرانک  اے اللہ یہ وقت  بغیر  آپ کے عمل  کے گزرگیا اےاللہ  میں آپ  سے معافی  طلب کرتا ہوں  یونی اس وقت  بھی اللہ سے معافی  طلب ہورہی ہے  اور  پھر فرماتے  تھے “الحمد للہ الذی  اذھب عن الاذی وعافانی ” ” تمام تعریفیں  اس اللہ ہی کی ہیں  جس نے  مجھے عافیت  عطا فرمائی   ہے اور ہر قسم  کی گندگی سے  مجھے بچایا ہے۔

 ہم سب کو چاہیے کہ اللہ کے نبی  ﷺ  کا یہ اسوہ اپنائیں ۔حضور ﷺ کایہ طریقہ   اپنی زندگی میں لائیں  اسی  طرح جب اللہ کے نبی   حاجت کے لیے جارہے  ہیں تو یہ دعا پڑھ   رہے ہیں   :

“اللہم  انی اعوذبک  من الخبث  والخبائث  ” اے اللہ میں تیری پناہ میں جارہا ہوں  وہاں جنات  کا اثر زیادہ  ہوتا ہے خبیث   جنیاں اور جنات  انسان کو زیادہ تنگ  کیا کرتے ہیں   اے اللہ ! وہاں  حفاظت   آپ ہی کرسکتے ہیں ، آپ کے علاوہ   کوئی نہیں کرسکتا اس لیے میں آپ کی پناہ   میں آتا ہوں ۔ یعنی حاجت  میں اجنے سے   پہلے اللہ کے نبی   ﷺ اللہ کی پناہ  میں آتے ہیں۔

ناپاکی  کے نقصانات  :

 پھر ہمیں  بھی  سبق دیا کہ اکثر جنات  اور جنیات   حملہ اس وقت  کرتی ہیں کہ جب تم گندگی   کے لیے پیشاب  پاخانہ  کے لیے   بیٹھتے  ہو۔ وجہ   یہ  ہے کہ انسان جب  گندہ  ہوتا ہے  تو یہ گندے اثرات  جلدی  قبول  کرلیتا ہے ۔ اس لیے   جتنے  جادو گر    عمل کرتے ہیں ،ان کا کام  ہی یہی ہوتا ہے  کہ وہ اپنا   جادو   دکھانے  کے لیے   جنات  سے مدد مانگتے  ہیں اور  جتنا جن کو راضی  کرے گا اتنا ہی اس کا جادو   زیادہ اثر کرے گا  اور اس کو اپنا جادو کرنے کے لیے  ہر گندگی اختیار  کرنا پڑتی  ہے،اللہ معاف  فرمائے  یہاں تک  سنا گیا ہے کہ   بعض جادو  کرنے کے بعد   پاخانہ  کھاتے  ہیں اور شراب  پینا  یہ تو ان کا عام مشغلہ  ہوتا ہے ،یہاں تک  کہ پیشاب   پیتے ہیں   ،بکروں  کو ذبح  کر کے ان  کا خون پیتے  ہیں، یعنی  جتنے حرام  کام  ہیں وہ   جتنا زیادہ   کرتے  ہیں   اتنا ہی اثران  کا زیادہ  ہوتا ہے ،اس لیے   معلوم ہو اکہ   گندگی  جنات  اور شیاطین  کو تو پسند  ہے۔لیکن  اللہ جل شانہ  اور اس کے فرشتے   اور اللہ کے رسول  پاکی  کو پسند کرتے  ہیں،گندگی  کو بالکل  پسند نہیں کرتے ۔

طہارت  کی اہمیت  : علماء  نے ایک عجیب بات  لکھی ہے کہ اللہ نے اپنے  نبی ﷺ  کو جب   نبوت عطا  فرمادی  اور نبوت  وعطا فرمانے کے بعد   3 سال تک وحی بند  رہی پھر تین سال  کے بعد وحی آنا شروع  ہوگئی تو اللہ جل شانہ  نے سب سے پہلے جو حکم   دیا : ” یا ایھا المدثر  ” اے کملی   اوڑھنے والے” قم  ” کھڑے  ہوجائیے  “فانذر  ” اور لوگوں  کو اللہ کی طرف  بلا اور ڈرا جہنم  سے۔ پھر   فرمایا : ” وربک فکبر  ” اے  نبی اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہی رہیے ۔ پھر  تیسرا حکم  جو  اللہ نے  اپنے نبی کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ  “فثیابک فطھر  ” اے نبی  اپنے کپڑوں  کو پاک رکھیے کہ کپڑوں   کی صفائی  سے ایسے اثرات  پڑتے ہیں  کہ فرشتے  سے آپ اک تعلق   ہے،فرشتہ آپ کے پاس  آتا ہے  اور کسی وقت بھی آسکتا ہے، تو جتنی  ناپاکی  ہوگی  فرشتہ  اتنا ہی دور  ہوجائے گا ۔

اس لیے  جتنی پاکی ہوتی  ہے اتنا  فرشتہ  قریب  آئے گا ۔

 معلوم ہوا کہ نہ نماز کا حکم مال نہ روزہ کا  حکم ملا ہے کوئی بھی  حکم ہیں ملا۔ سب سے پہلے   اللہ کی بڑائی بیان   کرنے کا ملا ہے  کہ اللہ کی بڑائی بیان  ہو اور یہ کہاجائے  کہ اللہ اکبر  اللہ سب سے بڑے ہیں ۔ یہ اللہ کی بڑائی کے بول ہیں۔ یہ حکم  پہلے دیا گیا اور بعد میں کہاگیا ” فثیابک فطھر  “اپنے  کپڑوں  کو پاک رکھیے  ۔

 وساوس کیوں آتے ہیں ؟

 عام طور پر  بعض لوگ شکوہ کیا کرتے  ہیں   کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نماز میں  دل نہیں لگ رہا اور نماز میں وسوسے  بہت آتے ہیں ۔اور خیالات ادھر ادھر چلے جاتے ہیں  اور نماز میں  استقامت نہیں رہتی  تو اس کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے  کہ یا تو اس کے پیٹ میں  ناپاک مال یعنی حرام مال ہے یا اس کا ظاہر ناپاک  رہتا ہے  کہ وہ کپڑے  پاک نہیں رکھتا، بدن   کو پاک نہیں رکھتا۔

یہ ایک بڑی وجہ ہوتی ہے وسوسوں کے آنے کی،نماز کے  چھوڑنے  کی،دین سے دور  ہونے   کی اس لیے  اللہ جل شانہ  نے یہ حکم  اپنے نبیوں  کو بھی دیا ہے ۔ بلکہ پوری انسانیت  کو دی اہے اور  پوری انسانیت  کو کہا ہے  : (یا ایھاالناس کلوا من طیبات  )  اے لوگو ! پاکیزہ  چیزیں کھای اکرو۔ ناپاک   حرام   چیزیں نہ کھایا کرو ۔ پوری انسانیت  کو خطاب   کیا ہے۔  اور اسی طرح  ایمان والوں کو بھی   کہا ” یا ایھا الذین  امنوا کلو من طیبات  ما رزقنکم  ” اے ایمان   والو! پاکیزہ چیزیں  کھایا کرو۔اللہ نے  عام لوگوں  کو بھی حکم یہی دیا ایمان  والوں  کو بھی یہی حکم  دیا بلکہ اس سے  بڑھ کر   اپنے رسولوں  کو بھی یہی کہا ہے  : یا ایھا الرسل  کلوامن  طیبات  ” اے رسولو! پاکیزہ   چیزیں کھایا کرو۔ تو معلوم  ہوا یہ ایسا  اہم حکم  ہے اگر ہدایت   لینی ہے تو ہدایت ملتی ہے  پاکیزہ  چیزیں کھانے سے ۔ جتنی پاکیزہ  چیزیں کھائی جائیں گی  ہدایت قبول  کرنا آسان  ہوگا ۔

 ناپاک مال  : اس لیے  میرے دوستو!  اللہ ہمیں  پاکیزہ  مال  کھانے  کی توفیق عطا فرمائے ۔ حرام  مال سب  ناپاک   ہے ۔اتنا ناپاک   ہے کہ علماء  نے یہ مسئلہ  لکھا ہے  کہ ایک آدمی  رشوت لیتا ہے ،ایک آدمی  سو د لیتا ہے ۔ اب  سوسد میں  اس کے پاس 5 لاکھ  روپے   آگئے ۔یا سٹہ  کھیلا  جو اکھیلا  یا انعامی  بونڈ  خریدلیا اوع اس میں 5 لاکھ  ک اانعام  نکل آیا۔ اسی طرح رشوت  لی یا جھوٹ  بول کر کمایا اور کما  کر لوگوں   کو دھوکہ دیا  اور کما کر  وہ حرام  مال جمع کرتا رہا۔ اب 5 لاکھ   روپیہ  اس کے پاس جمع  ہوگیا۔عام طور پر   جس پر  2 یا 3 لاکھ روپے جمع  ہوجائیں  اس پر حج  فرض ہوا کرتا ہے  لیکن اس حرام  مال والے پر حج   فرض نہیں ہے۔

وہ اس لیے کہ حرام مال اللہ قبول کرتے ہی  نہیں ہیں ۔ جب اللہ قبول کرتے ہی نہیں تو اس آدمی  کا حج پر جانا فرض  بھی نہیں،اس پر زکوۃ  بھی فرض نہیں ہے کیونکہ حرام مال ک احکم تو یہ ہےکہ  جتنا مال آی اہے   وہ سارا غریب   کو بغیر ثواب   کی نیت کے  دے دیا جائے  گا۔ یہ معاذ اللہ ! اللہ پر بہت بڑا  بہتان ہے  ۔ اس لیے فرمایا کہ خرہ  ہے کہ کافر  نہ ہوجائے  وہ آدمی ۔

صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ سارا مال غریب   کو بغیر ثواب   کی نیت سے دیا جائے ۔

اللہ جل شانہ  نے ایسے احکام  دئیے ہیں  ہمیں کہ ہم اگر اس پر عمل   کرلیں گے تو ایک  عطبادت  پر استقامت  ملے گی  ۔اللہ کا قرب   ملے گا اور دنیا میں حفاظت   ہوگی ،جنات  وغیرہ  ا ثر  نہیں کریں گے ، وساوس نہیں آئیں گے  ،نماز پر استقامت  ملے گی، طرح طرح  کے خیالات  نہیں آئیں گے  اور پھر  یہ مال باقی  رہے گا ۔کیونکہ  حرام مال  کبھی باقی   نہیں رہتا۔اللہ اس کو مٹاکر   رکھتے ہیں   ۔

اس لیے   میرے دوستو! اگر  ہم یہ چاہیں کہ  ہمارا مال  باقی رہے  ،ہمار اکاروبار   چلتا رہے ،ہمارا   لین دین صحیح  رہے اور ہم کھاتے  پیتے  رہیں  تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ   حلال کمانے کی جرات  کی جائے  کہ اللہ ہمیں حلال کما نے  کی توفیق دے دے۔ ہم حرام   سے بچنے کی کوشش کریں ۔ تو جتنا   حرام  سے بچیں گے  ان شاء اللہ ،اللہ جل شانہ   کاروبار  میں برکت  دیں گے  اور وساوس  سے محفوظ  رکھیں گے ۔ شیاطین  کے حملے  اس پر کم ہوں  گے۔

 نیک عامل   :  میں نے بتایا کہ اکثر  شیاطین  کا حملہ  ناپاکی  میں ہوتا ہے اور جتنے  نیک عامل   ہیں ان میں اکثر  ہوتا  یہ ہے کہ دین دار  عامل   سے جنات  ناراض  ہوتے ہیں کیونکہ وہ  ان پر عمل  کرتا ہے  اور  جنات  عام طور پر  چاہتے ہیں  کہ اس کا  نقصان   کریں ۔ اس لیے صحیح عامل  پیشاب  وغیرہ  سے فارغ   ہونے کے  بعد سب  سے پہلے وضو کرتے ہیں  اور وضو کر کے جنات  کے حملوں  سے اپنے آپ کو محفوظ  کرتا ہے  ۔

لیکن بعض دفعہ  ہوتا یہ ہے کہ عامل وغیرہ کی  اولاد  کو جنات ماردیتے ہیں  کیونکہ وہ جنات  پر عمل  کرتا ہے تو جنات  اس کی اولاد  کو ماردیتے  ہیں۔ اکثر  یہ ہی ہوتا ہے۔لیکن   اس کا حملہ  زیادہ اسی وقت  ہوتا ہے  جب ناپاکی   زیادہ ہو۔ اور جتنی  پاکی  ہوگی  وہ حملہ اتنا ہی کم ہوگا ۔

اس لیے  اللہ جل شانہ   ہمیں بھی پاک رہنے  کی توفیق عط افرمادیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمادیں ۔کیونکہ  ہر آن ہر لحظہ   اللہ کی نعمتیں  ہم پر آرہی ہیں ۔کوئی ایک گھڑی   بھی ہم  اللہ کی نعمتوں  سے خالی نہیں  ہیں ۔ہمیں سانس آرہ اہے   ،یہ بھی اللہ کی نعمت  ہے۔کتنے  لوگ ہیں  کھانا  کھارہے تھے ۔لقمہ    پھنسا اور وہیں  موت آگئی ۔ یعنی اگلا سانس  نہیں آسکا۔ یہ اگلا سانس  ہمیں آجاتا ہے  اور اللہ ہماری حفاظت  فرمادیتے ہیں اور   ہم دوبارہ  صحیح ہوجاتے  ہیں  ۔لیکن اللہ کے لیے کیا مشکل ہے  ؟ وہ حکم   دے دے   تو سانس  ہمارا   وہیں  رک جائے ،اللہ اس پر قادر  ہیں۔،اس لیے  ہر آن   اللہ کا شکر  ادا کیاجائے  اور اس کی نعمتوں  کی ہر آن  کی قدر کی جائے  ،گناہوں  سے بچا جائے ،حلال کھانے کی فکر   کی جائے  ،اللہ ہم سب   کو گناہوں   سے بچائے ،اللہ جل شانہ  ناپاکی  سے محفوظ   رکھے اور  اللہ اپنا ذکر  کرنے والا بنائے  اور اپنے  کو یاد  کرنے والا بنائے ۔ ( آمین )

اپنا تبصرہ بھیجیں