پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیثیت معبر(تعبیر بتانے والا)

“پندرہواں سبق”

پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم “بحیثیت معبر”(تعبیر بتانے والا)

“خواب کیا ہے؟”

“تمام انسانی اعضاء تھک ہار کر سوجاتے ہیں-صرف ایک عضو ایسا ہےجو سو نہیں سکتااور وہ ہے انسانی دماغ-“انسانی دماغ کو کبھی چھٹی نہیں ملتی-اسے نیند کی حالت میں بھی فعال رہنا پڑتا ہے- انسان جب سوتا ہے تو “اللہ تعالیٰ”کے بنائے ہوئے نظام کے تحت اس کے دل پر خیالات کا ورود جاری رہتا ہے- یہ خیالات کبھی فرشتے کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں اور کبھی شیطان کی طرف سے اور کبھی مرکب صورتحال ہوتی ہے–یہ باتیں کبھی حقیقت کی صورت میں القاء کی جاتی ہیں٫اور کبھی کبھی اشارات و علامات کی صورت میں-بعض دفعہ مخلوط اور متشبہ کی سی کیفیت میں ڈالی جاتی ہے-اس کیفیت کو ہم بیداری سے بھی سمجھ سکتے ہیں- بیداری کی حالت میں انسان کے دل ودماغ میں افکار و خیالات کا ایک ہجوم رہتا ہے- جیسی “طبیعت و فطرت” ہوتی ہے ویسے ہی افکار آتے جاتے رہتے ہیں- ( کتاب الرؤیا)

“قرآن کریم” کے خواب اور انکی تعبیر”

“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو علوم براہ راست”اللّٰہ تعالٰی” نے سکھائے تھے-“تعبیر خواب” کا علم بھی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو ” اللّٰہ جل شانہ” نے ہی سکھائے ہیں-” قرآن مجید” میں”7″ خواب اور انکی تعبیریں موجود ہیں-

یہ خواب ان کے وقوع کی ترتیب سے پیش خدمت ہے-

1-“حضرت ابراہیم خلیل اللہ”علیہ السلام” نے خواب میں دیکھا کہ”اللّٰہ تعالٰی”انکو اپنی پسندیدہ چیز قربان کرنے کا حکم دے رہے ہیں-یہ خواب مسلسل”3″دن دکھائی دیتا رہا-تب” حضرت ابراہیم علیہ السلام” نے اس خواب کی تعبیر یہ لی کہ اپنی پسندیدہ یا محبوب چیز “اللّٰہ” کی راہ میں قربان کردو(جو ان کا اپنا بیٹا ہی ہوسکتا ہے)- یہ خواب انہوں نے اپنے بیٹے کو سنایا (تعبیر کے ساتھ)

“اللّٰہ تعالٰی” نے” حضرت اسماعیل علیہ السلام” کے بدلے جنت سے مینڈھا بھیج دیا (جو بیٹے کی جگہ ذبح ہوا)

2-“حضرت یوسف علیہ السلام” کا خواب”

” حضرت یوسف علیہ السلام” نے( اپنے بچپن میں )خواب دیکھا کہ “11”ستارے( گیارہ بہن بھائی) اور”چاند سورج” ( والدین)جو ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں-

یہ خواب حقیقت تھا جو “40”سال بعد پورا ہوا-

“3-“4- یہ اس وقت کے خواب ہیں جب” حضرت یوسف علیہ السلام” جیل میں تھے-وہاں دو قیدی لائے گئے٫ (جن پر “بادشاہ وقت”کے کھانے میں “زہر” ملانے کا الزام تھا-)ان میں سے ایک نے یہ خواب دیکھا کہ وہ انگور نچوڑ کر اس کا رس”بادشاہ” کو پلارہا ہے٫(یہ بادشاہ کا ساقی تھا)دوسرے شخص نے دیکھا کہ وہ سر پر روٹیاں اٹھائے جا رہا ہے جس سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں-( یہ بادشاہ کا باورچی تھا)- “حضرت یوسف علیہ السلام” نے یہ تعبیر دی کہ تم( ساقی) اپنے الزام سے بری ہو جاؤگے اور دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہو جاؤگے-جبکہ( باورچی کے خواب کی)یہ تعبیر دی کہ تم ہر الزام ثابت ہو جائے گا٫جس کی سزا میں تمہیں صلیب پر چڑھایا جائے گا اور پرندے تمھارے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے-

“5”-“شاہ مصر” کا خواب”

“شاہ مصر” نے خواب میں دو مناظر دیکھے-ا-ایک یہ کہ”7″موٹی گائیں” ہیں جنہیں7″دبلی گائیں”کھا رہی ہیں-2- دوسرا یہ کہ ایک طرف”7″سبز خوشے ہیں٫اور دوسری طرف “7” خشک خوشے ہیں-“خشک خوشے”سبز خوشوں کو لپٹ کر ان کو کھا جاتے ہیں-

“حضرت یوسف علیہ السلام” نے تعبیر دی کہ “7”موٹی گائیں” اور “7” سبز خوشوں” کا مطلب ہے کہ”7″ خوشحالی کےسال”- جبکہ”7″دبلی گائیں اور “7” خشک خوشوں”کا مطلب ہے “قحط سالی کے”7″سال-

“گائے کا فربہ ہونا اور “خوشوں کا سبز ہونا” اچھی علامت ہے جبکہ “گائے کا دبلا ہونا اور خوشوں کا خشک ہونا”برا ہے-

“بادشاہ” کا خواب ہے اس لئے اشارہ”اس کی رعایا اور اس کے ملک کی صورتحال” کی طرف ہے-

تمام کڑیوں کو جوڑیں تو یہ تصویر ہمارے سامنے آتی ہے کہ” مصر”میں اگلے “7”سال بہت اچھے ہونگے- وافر مقدار میں “غلہ اور اناج”اگے گا-اور اس سے اگلے “سات سال”بہت کٹھن ہونگے-ملک میں قحط سالی ہوگی-اس کے بعد حالات ٹھیک ہو جائینگے”-

یہ” تینوں خواب”خواب کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس میں”رمزیہ” یعنی اشارات کی زبان استعمال کی گئی ہے-

“خواب اور” اسوہء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”

آدمی جتنا سچا ہوتا ہے اس کا خواب بھی اتنا ہی سچا اور حقیقت سے پر ہوتا ہے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”نبوت” کی ابتدا بھی سچے خوابوں کے ذریعے ہوئ-“نبوت” سے پہلے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جو بھی خواب دیکھتے وہ”صبحِ روشن” کی طرح حقیقت بن کر ظاہر ہوتا- “6” ماہ اسی حال میں گزرے-“6″ ماہ بعد” غار حرا” میں پہلی وحی نازل ہوئی اور نبوت عطاء کی گئ-” نبوت ملنے کے بعد”پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”دنیا میں “22”سال حیات رہے- ” سچے خوابوں کے یہ “6”ماہ”23″سالوں کا “46واں” حصہ ہیں-

اسی لئے”حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں “سچے خوابوں” کو نبوت کا “46”واں حصہ کہا گیا ہے-

1-“غزوہء بدر”کا خواب”

ہجرت کے دوسرے سال “غزوہء بدر”کے موقع پر “نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو خواب میں دکھایا گیا کہ دشمن کی تعداد بہت کم ہے-یہ خواب بھی اشاراتی زبان میں ہے-حقیقت میں دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی-لیکن خواب میں کم دکھانا اس کا اشارہ تھا کہ”دشمن کی تعداد گو کہ بہت زیادہ ہے لیکن وہ بہت معمولی اور کمزور ثابت ہونگے-“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے خواب” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو سنایا اس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے-

2-“عمرہ” کی ادائیگی کا خواب”

“ہجرت” کے پانچویں سال “میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے خواب دیکھا کہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے ساتھ “عمرہ” کرنے تشریف لے گئے ہیں-” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اطمینان سے ” مسجد الحرام” میں داخل ہوئے ہیں-” عمرہ” کر کے سر منڈوایا ہے٫ جبکہ بعض نے بال کٹوائے ہیں- یہ خواب حقیقت بن کر رونما ہوا لیکن جس سال خواب دیکھا اسی سال نہیں بلکہ اسکے بعد والے سال میں پورا ہوا-

“سیرتِ طیبہ کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کا تعلق خواب سے جڑتا ہے-

دوسری طرف” آپ صل اللہ علیہ وسلم”معبر اعظم” بھی تھے-آئیے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں-

“مذہبی رسومات” کے لئے ہر مذہب کا ایک طریقہء کار رہا ہے-

کوئ بگل بجاتا ہے تو کوئ گھنٹیاں٫اور کوئ ناقوس-

“نماز با جماعت” کے لئے بلانے کے لئے مسلمانوں کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے٫ اس حوالے سے “عہد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں مشاورت ہوئ٫ مختلف آراء سامنے آئیں-

کسی نے ناقوس بجانے٫ کسی نے آگ جلانے کا مشورہ دیا”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے سب رد کردئے-ایسے میں ایک صحابی”حضرت عبداللہ بن زید بن عبدریہ رضی اللّٰہ عنہ”آئے اور انہوں نے اپنا خواب بیان کیا جس ۔میں “اذان” کے الفاظ ان کو سکھائے گئے تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”سچا خواب ہے- اب مسلمان اسی طرح”اذان دیا کریں گے-اس طرح “اذان” کی ابتداء”خواب” کے ذریعے ہوئ-(مرقاہ)

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے کسی مرحوم کو سفید کپڑوں میں دیکھنے کی تعبیر اس کے جنتی ہونے سے دی،-ورقہ بن نوفل” کے انتقال کے بعد”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ان کو خواب میں سفید کپڑوں میں دیکھا تو یہی تعبیر دی-(مشکوہ:1302/2)

“مرحوم” کے لئے جاری نہر کے دیکھنے کی تعبیر اس کے نیک اعمال سے دی-

“ڈراؤنے خواب” کے بارے میں” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”کہ نیک آدمی ایسا خواب دیکھے تو یہ شیطان ہوتا ہے- جو اس سے کھیل کر رہا ہوتا ہے-( مشکوہ)

“آپ صل اللہ علیہ وسلم نے دودھ پینے کی تعبیر “علم اور فطرت” سے دی-

” بیڑی” کی تعبیر”دین میں استقامت” سے دی-

“طوق”کی تعبیر”جہنم” سے دی-” مظبوط کڑے” کی تعبیر” دین اسلام” پر استقامت سے دی-“عبداللہ بن سلام” کے مناقب میں یہ بات” کتب احادیث” دیکھی جا سکتی ہیں- ( مشکوہ٫4210)

“کشتی کی تعبیر” نجات” سے دی-“اونٹ” کی تعبیر “غم” سے”سبزے” کی تعبیر”جنت” سے اور”عورت کی تعبیر” خیر” سے دی(سنن دارمی)

“تلوار ٹوٹنے” کی تعبیر ” شکست” سے٫جبکہ”تلوار” جڑنے اور بہتر صورت میں دیکھنے کی تعبیر “فتح و نصرت” سے دی- ( مشکوہ:2920/7)

“سورج آسمان میں جانے” کی تعبیر”اپنے دنیا سے پردہ”کر جانے سے دی- (سنن دارمی٫ص 516)

“نتائج و فوائد”

“قرآن کریم” اور”سیرتِ طیبہ” کے ان حوالوں سے ہمیں”خواب اور تعبیر خواب” کے یہ اصول ملتے ہیں-

1-“تعبیر خواب کا علم” انعامات الہی”میں سے ہے-

2-“تعبیر خواب” ایک طرح سے فتویٰ ہے-” سورہ یوسف”میں”تعبیر خواب” کے لئے”تستفتیان”کا لفظ آیا ہے- یعنی”خواب اور تعبیر خواب” پر استفتاء اور فتویٰ” کا اطلاق کیا گیا ہے- اس لئے”معبر” کو احتیاط کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اصولوں کے مطابق”تعبیر” دینی چاہئے-

3-“انبیاء کرام علیہم السلام”بادشاہ”عوام وخواص٫ مرد وعورت” سب کے”خوابوں” کا تذکرہ”قرآن مجید” میں موجود ہے-

4-“قرآن کریم” میں “خواب کی تعبیر” حقیقت”سے بھی دی گئی ہے اور” اشارات” سے بھی-

5-“جو تعبیر” بھی دی جاتی ہے وہ واقع ہو جاتی ہے-جب کہ وہ اصولوں پر اترتا ہو-

6-“کافر” کے خواب کی تعبیر بھی سچی ہو سکتی ہے-“باشاہ مصر” جس کے”خواب” کی تعبیر ” حضرت یوسف علیہ السلام” نے دی وہ”کافر” تھا-

7-“خواب” کی تین قسمیں ہوتی ہیں-1- کچھ خواب” آپ کے” ماضی یا مستقبل” کے عکاس ہوتے ہیں-“بشارت٫ اطلاع یا تنبیہ” لئے ہوئے-یہ “خواب”حقیقت ہوتے ہیں-“فرشتوں”کی طرف سے ایسے”خواب” دل میں القاء کئے جاتے ہیں-

2-“کچھ خواب”ذہنی پریشانیوں٫پراگندہ خیالات یا پیٹ کی خرابیوں کا شاخسانہ ہوتے ہیں-“ذہنی پریشانی کے موقع پر جب دن بھر انسان” ذہنی دباؤ” میں ہو تو نیند میں بھی برے خواب نظر آتے ہیں-

یا انسان دن بھر جو خواب و ارمان دل میں بسائے رکھتا ہے سوتے ہوئے وہ ارمان اسے سپنے کی صورت میں خوش کرتے ہیں-

یا انسان کا معدہ خوب بھرا ہوا ہو تو ایسے مواقع پر بھی”فضول خواب” آتے ہیں- ایسے”خوابوں” کی کوئ تعبیر نہیں ہوتی-

“معبر حضرات” بس یوں کہ دیتے کہ”خیالات” ہیں-

انہی الٹے سیدھے خیالات کو”اضغاث احلام”میں شمار کیا جاتا ہے-بیمار آدمی کے”خواب” کو بھی “بعض علماء” نے”اضغاث احلام” میں شمار کیا ہے-

3-“ڈراؤنے خواب” نظر آئیں٫ناممکن چیز نظر آئے یا غسل واجب” ہو جائے تو یہ شیطانی”خواب” ہوتا ہے-

8-اگر ایک آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے برا خواب” دیکھا ہے٫اس کی تعبیر اچھی نہیں ہوگی تو اسے چاہئے کہ اس خواب کی تعبیر نہ لے- اسے کسی کے سامنے بیان بھی نہ کرے٫بلکہ جیسے ہی آنکھ کھلے”بائیں جانب “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم” پڑھ کر”3″مرتبہ “تھو تھو تھو” کرے اور کروٹ بدل کر سو جائے-ایسا کرنے سے”صاحب خواب”اس خواب کے شر سے محفوظ رہے گا-(مشکوہ:1297/2)

9-“خواب” اپنے دشمن سے بیان نہ کریں بلکہ ہمیشہ اپنے”خیر خواہ” سے بیان کریں-اسی طرح”خواب عوام سے بیان نہ کریں بلکہ جو اس کی تعبیر کا ماہر ہو اسی سے بیان کریں-( مشکوہ:130/2)

10-“عموماً لوگ” خوابوں” پر یقین رکھنے والے ہوتے ہیں٫ اس لئے بہت سے لوگ اس سے ذاتی فوائد بھی سمیٹتے ہیں اور اپنے ذاتی مقاصد کے لئے “جھوٹے خوابوں” کا سہارا لیتے ہیں- کبھی گدی نشینی کے لئے٫کبھی مال و میراث٫ کے لئے اور کبھی سیاسی فوائد” کے لئے- لوگوں کو چاہئے کہ اپنے فیصلوں کا مدار”شریعت اور علم و عقل کو سمجھیں اور جھوٹے خوابوں سے دھوکہ نہ کھائیں-

(ختم شد الحمدللہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں