پرانے تعویذ وغیرہ کو جلانا

سوال:جو گھر میں پرانے تعویذ ہوتے ہیں بخار کے یا نظر کے جو بچوں کے لیے ہوتے ہیں ،ان کا کیا کرنا چاہیے؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
تعویذ میں چونکہ قرآنِ کریم کی آیات اور مسنون و مجرب رقیہ لکھے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا حکم بھی قرآن والا ہوگا یعنی جو اَوراق بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں تو انہیں پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں یا ویران کنویں میں ڈال دیں یا بھاری پتھر باندھ کر سمندر میں بہادیں،اگر وہ سیاہی والے قلم سے لکھے ہیں تو پھر یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ پانی والے برتن میں انہیں ٹھنڈا کرکے پانی کسی صاف جگہ ڈال دیں۔تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔
************************************
حوالہ جات :
1: حاشیہ ابن عابدین :
والدفن أحسن کما فی الأنبیاء و الأولیاء إذا ماتوا، و کذا جمیع الکتب إذا بلیت و خرجت عن الإنتفاع بھا اھ: یعنی أن الدفن لیس فیہ إخلال بالتعظیم، لأن أفضل الناس یدفنون، و فی الذخیرۃ: المصحف إذا صار خلقاً و تعذر القراءۃ منہ لا یحرق بالنار، إلیہ أشار محمد و بہ نأخذ، ولا یکرہ دفنہ، و ینبغی أن یلف بخرقۃ طاھرۃ و یلحد لہ لأنہ لو شق و دفن یحتاج إلی إھالۃ التراب علیہ و فی ذٰلک نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف وإن شاء غسلہ بالماء أو وضعہ فی موضع طاھر لا تصل إلیہ ید محدث و لا غبار و لا قذر تعظیماً لکلام اللہ عزوجل ا(الدر المختار مع ردالمحتار، 9/696، مطبوعہ پشاور)
2: فتاوی ھندیہ:
المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة.” (الفتاوی الهندیة: 5/323)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
22 دسمبر 2022ء
28 جمادی الاولی 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں