قربانی کےجانورمیں حرام مال والےکی شرکت کاحکم

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:161

الجواب حامدا ومصليا

 (1) قربانی کے جانور میں ایسے شخص کو شریک نہیں کرنا چاہئے جس کی آمدنی حلال نہ ہو البتہ اگر کسی نے ایسے شخص کو اپنی قربانی میں شریک کر لیا ہے تو ایسی صورت میں بعض علماء کے نزدیک اس شخص سمیت کسی بھی شریک کی قربانی  درست نہیں ہو گی جبکہ بعض علماء کے نزدیک دوسرے شرکاء کی قربانی بہر حال درست ہو جائے گی اور جس شخص  کا مال حلال نہیں ہے اس کی قربانی بھی ذمہ سے اتر جائے گی لیکن اسکو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا مالی عبادات میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے قول پر عمل کیا جائے تاہم اگر کسی مجبوری میں دوسرے قول پر عمل کرلیا تو اسکی بھی گنجائش ہے، البتہ اگر کسی کو شریک کرتے وقت یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کی آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں باقی شرکاء کی قربانی بہر حال درست ہو جائے گی۔

الدر المختار -(ج۲/ص٣٢٦)

  وإن مات أحد السبعة ) المشتركين في البدنة ( وقال الورثة اذبحوا عنہ وعنكم صح) عن الكل استحسانا لقصد القربة من الكل ولو ذبحوہا بلا إذن الورثة لم يجزہم الأن بعضہا لم يقع قربة ( وإن كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم لم يجز عن واحد ) منہم لأن الإراقة لا تتجزأ ہداية لما مر

ردالمحتار -(ج3/ص۲۵۷)

( قولہ وإن كان شريك الستة نصرانيا إلخ ) وكذا إذا كان عبدا أو مدبرا برید الأضحية لأن نيتہ باطلة لأنہ ليس من أہل ہذہ القرية فكان نصيبہ لحما فمنع الجواز أصلا بدائع .

ردالمحتار – (ج۷/ص ٥٥ )

لو أخرج زكاة المال الحلال من مال حرام ذكر في الوہبانية أنہ يجزئ عند البعض

 (۲) جس شخص کی غالب آمدنی حرام ہو اور وہ اسی حرام آمدنی سے شرکت، مضاربت یا خرید و فروخت کرے تو اسکے ساتھ یہ معاملات کرنا جائز نہیں ہیں، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے البتہ اگر اسکی غالب آمدنی حلال ہو یا وہ کسی حلال رقم سے پاک سے قرض لیکر مذکورہ معاملات کرے تو ایسی صورت میں اس سے مذکورہ معاملات کئے جا سکتے ہیں۔

الدر المختار -(جہ/ص۹۸)

وفيہ الحرام ينتقل فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاہ وأخرجہ إلينا ملكہ وصح بيعہ لكن لا يطيب لہ ولا للمشتري منہ

 حاشية ابن عابدين -(جہ/ص۹۸)

قولہ ( الحرام ينتقل ) أي تنتقل حرمتہ وإن تداولتہ الأيدي وتبدلت الأملاك

 ردالمحتار – (ج ۱۹/ص۳۷۰)

( قولہ الحرمة تتعدد إلخ ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوہاب الشعراني أنہ قال في كتابہ المنن : وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين ، سألت عنہ الشہاب ابن الشلبي فقال : ہو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك ، أمالو رأی المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيہ آخر ثم يأخذ من ذلك الأحر آخر فہو حرام…………………….والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ عليہم ، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل لہ ويتصدق بہ بنية صاحبہ ، وإن كان مالا مختلطا محتمعا من الحرام ولا يعلم أربابہ ولا شيئا منہ بعينہ حل لہ حكما ، والأحسن ديانةالتيرہ عنہ

(۳)۔۔۔۔ اگر بیوی کے لئے جائز طریقے سے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن ہو تو ایسی صورت میں اسکے لئے اپنے شوہر کے مال سے کھانا جائز نہیں، لیکن اگر بیوی کے لئے اپنے اخراجات جائز طریقے سے برداشت کر ناممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسکے لئے اپنے شوہر کے مال سے کھانا جائز ہے اور اسکا گناہ شوہر پر ہو گا۔

نابالغ اور چھوٹے بچوں کا بھی یہی حکم ہے اور حرام کھانے کا گناہ باپ پر ہوگا۔ البتہ بالغ اولاد کے لئے باپ کی حرام آمدنی سے کھانا جائز نہیں ہے بلکہ خود کما کر کھائیں۔

قال شيخنا العثماني في بحوث في قضايا فقہية معاصرة-(ج۱/ص۳٤۷)

يجب على الزوجات في مثل ہذہ الحال أن يبذلوا أقصى ما في وسعہم في تحذير أزواجہن عن العمل في بيع الخمور والخنازير ولكنہم إن أبوا إلا العمل فيہ، فإن تيسر لہن تحمل نفقات أنفسہن بطرق مباحة، فلا يجوز لہن الأكل من أموال أزواجہن، وإن لم يتيسر لہن ذلك، فيسع لہم الأكل، والإثم على الأزواج والآباء، للأطفال الصغار حكم الزوجات، أما الأولاد الكبار فعليہم أن يكتسبوا لأنفسہم، ولا يأكلوا من ہذا المال.و جواز الأكل للزوجة في مثل ہذہ الحالة قد صرح بہ بعض الفقہاء

قال ابن عابدین رحمہ اللہ: “امرأة زوجہا في أرض الجور، إذا أكلت من طعامہ ولم يكن عينہ غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة مال أصلہ ليس بطيب فہي في سعة من ذلك، والإثم على الزوج

 واللہ اعلم بالصواب

عبد الماجد اشرف  عفا اللہ عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

 ۳۰ جمادی الاول ۱۴۳۲ھ

۵ اپریل ۲۰۱۱ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/669611263408122/

اپنا تبصرہ بھیجیں