صدقے سے معلم کو تنخواہ دینا

ایک خاتون کسی مدرسے کی معلمہ ہیں عموما چھوٹے مدارس عطیات پر چلتے ہیں جس میں صدقے بھی شامل ہوتے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہیں اسی میں سے دی جاتی ہیں تو کیا ایسی خاتون جو کہ ذات کے اعتبار سے سید ہیں ان کا یہ تنخواہ لینا اور استعمال کرنا جائز ہے؟ جبکہ ایسی کوئی شدید مجبوری نہ ہو تو بھی جائز ہے یا صرف مجبوری میں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ سادات کو زکوۃ یا صدقات واجبہ میں سے کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا، نیز مدرسے کے اساتذہ کی تنخواہیں بھی زکوۃ اورصدقہ واجب سے بغیر تملیک کےدینا جائز نہیں، تاہم نفلی صدقات و عطیات سے دی جا سکتی ہیں۔
لہذا مذکورہ معلمہ کی تنخواہ نفلی صدقات اور عطیات سے دی جائے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ البتہ زکوٰۃ یا صدقات سے واجبہ سے بغیر تملیک کے تنخواہ ادا کرنا جائز نہیں۔
———————————————
حوالہ جات :
1.إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ. (صحیح مسلم: 1072)
ترجمہ: ’’یہ صدقات لوگوں کا میل کچل ہیں اور یقیناً یہ محمد اور آل محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں”
2.”(قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن – أهل بيت – لاتحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»”.(البحر الرائق: جلد 2، صفحہ 265)
3.”ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا. (قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض”. (فتاوی شامیہ: جلد 2، صفحہ 356)
3.(تملیکا لا اباحۃ کمامر )فلا یکفی فیھا الاطعام الا بطریق التملیک، ولو اطعمہ عندہ ناویا للزکوۃ لا تکفی۔ (فتاوی شامیہ: جلد 2، صفحہ 344)
4.”فهي تملیك المال من فقیر مسلم … بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه”. (فتاوی الھندیہ: جلد 1،صفحہ 170)
5. صدقہ واجبہ اور زکوۃ کا غربا پر تملیکا صرف کرنا بلا معاوضہ ضروری ہے۔ مدرسین وغیرہ کی تنخواہ میں براہ راست دینا جائز نہیں۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 9، صفحہ 606)
6. سوال: زکوۃ اور عطیات کی مخلوط رقم سےتنخواہ دینا:
زکوۃ کی رقم کا تنخواہ میں دینا جائز نہیں، مخلوط میں سے جتنی زکوۃ کی تنخواہ میں دی گئی ہے اتنی مقدار زکوۃ ادا نہیں ہوئی۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 9، صفحہ 607)
واللہ اعلم بالصواب
17رجب 1444
9فروری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں