صاحب نصاب شخص فقیر ہوجائے تو اس کو زکوٰۃ دینے کا حکم

السلام علیکم !
سوال: ایک مسئلہ کا جواب معلوم کرنا ہے اگر کوئی کروروں کی جائداد کا مالک ہو اس کی جائداد گھر سب ضبط ہو گیا ہو ملنے کی کوئی امید نہ ہو اس کی حالتیں بہت تنگ ہو گئی ہیں کیا ان کو زکات دینا جائز ہے ؟ اس کا جواب عنایت فرما دیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب باسم ملھم الصواب

سوال میں مذکور شخص مسلمان ہو ، سید نہ ہو اور واقعتا وہ صاحب نصاب نہ ہوں( یعنی ان کے پاس حاجت اصلیہ( رہنے کا مکان ، پہننے کو کپڑے کھانے کا راشن وغیرہ ) کے سوا ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقدی یا مال تجارت اور ضرورت سے زائد چیزیں جو گھر یا اسٹور میں رکھی ہوتی ہیں اور استعال میں نہیں آتیں) نہ ہوں تو ان کو زکوۃ دی جا سکتی ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات :

1 :إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

(سورة التوبة : 60)

ترجمہ :صدقات تو دراصل حق ہے فقیروں کا ، مسکینوں کا ٍ۔۔۔۔الخ

تفسیر :ان میں پہلا مصرف فقرا ہیں دوسرا مساکین فقیر اور مسکین کے اصلی معنی میں اگرچہ اختلاف ہے ہی کے معنی ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو دوسرے کے معنی ہیں جس کے پاس نصاب سے کم ہو لیکن حکم زکات میں دونوں یکساں ہیں کوئی اختلاف نہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اس کی ضروریات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال نہ ہو اس کو زکات دی جا سکتی ہے –

(معارف القرآن :4/396)

2 :حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ حَدِيثًا طَوِيلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَاهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يَرْضَ بِحُكْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ حَتَّى حَكَمَ فِيهَا هُوَ فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَاءٍ فَإِنْ كُنْتَ مِنْ تِلْكَ الْأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُكَ حَقَّكَ۔

حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے بیعت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لمبی حدیث بیان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا : پھر ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ مجھے صدقہ میں سے کچھ دیجیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ عزوجل نے صدقات کی تقسیم کا مسئلہ نبی یا کسی دوسرے کی پسند پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کے بارے میں خود ہی فیصلہ فرمایا ہے ۔ اور انہیں آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم فرما دیا ہے ۔ اگر تم ان میں سے ہو تو میں تمہیں تمہارا حق دیے دیتا ہوں ۔‘‘

(سنن ابو داؤد:1630)

3: هو فقير وهو من له أدنى شيء أي دون نصاب أوقدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة۔
(در مختار : كتاب الزكاة باب المصرف : 137)

4: زکوۃ و عشر کا ایک مصرف فقیر ہے اور فقیر شریعت میں اسکو کہتے ہیں جس کے پاس تھوڑا مال ہو ۔۔۔ تھوڑا مال سے مراد یہاں یہ ہے نصاب نامی کا مالک نہ ہو اور اگر نصاب کے برابر ہو تو وہ نامی ( بڑھنے والا) نہ ہو اور ضرورت میں مشغول ہو جیسے رہنے کے گھر خدمت کے غلام گھر کے سامان پہننے کے کپڑے پیشے کے آلات وغیرہا ان ضروریات زندگی کے سوا اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے تو اس کے لئے زکوۃ لینا جائز ہے ورنہ حرام ہے –
(کشف الاسرار 2/179 ،ترجمہ و شرح در مختار، از مولانا محمد ظفیر الدین مفتاحی حفظہ اللہ )

5: زکوۃ ایسے مسلمانوں کو دی جائے جو غریب فقیر ہوں سید نہ ہوں۔
(فتاوی محمودیہ: 9/519)

واللہ اعلم بالصواب

12 شعبان 1445
23 فروری 2024

اپنا تبصرہ بھیجیں