فتویٰ نمبر:611
سوال :گورنمنٹ ملازم کا بینک میں اگرسیونگ اکاؤنٹ ہوتو کیا جائز ہے؟ پہلے کرنٹ تھا اب خود بینک والوں نے سیونگ میں تبدیل کر دیا. بول رہے ہیں کہ:یہ بینک پالیسی ہے سب کے اکاؤنٹ سیونگ کر دیں گے, اب دوبارہ اگر کرنٹ کروائیں تو ممکن نہیں, نیو اکاؤنٹ کھلوانا پڑے گا, پھر اسکو ٹریزری آفیس بھیجنا مشکل کام ہے اب بتائیں کیا کیا جائے؟
الجواب حامدة ومصلیة:
1۔بینک میں حفاظت کی غرض سے رقم رکھوانے سب سے بہترین اور بے غبار صورت یہ ہے کہ لاکر میں رکھوائے البتہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوانے کی بھی گنجائش ہے جس پر سود نہیں لگایا جاتا ,اورجن مدآت میں سود لگتا ہے مثلا سیونگ اکاؤنٹ اور فکسڈ ڈیپازیٹ,ان میں رقم رکھوانا درست نہیں ۔
2۔دوسری بات یہ کہ سود لینا اشد گناہ ہے اور اس سے بچنا بھی بہت ضروری ہے چاہےاس کے لیے کتنے ہی دھکے کھانے پڑیں یا پریشانی اٹھانی پڑےلہذاِ صورت مسئو لہ میں سود نہ لینے کی درخواست لکھ دی جائے ,سود بینک سے نہ لیاجائےاور اگر غلطی سے وصول کرلیاہے تو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردےکیونکہ اس کو وصول کرکے صدقہ کرنا ایسا ہے جیسے گناہ کرکے کفارہ ادا کیا جائے,اس سے بہتر ہے کہ شروع ہی سے گناہ نہ کرے ۔
(فتاوی عثمانی:3 ؑ/268)(ص/121,120,128کے حواشی میں مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں )
واللہ اعلم بالصواب
اہلیہ مفتی فیصل
صفہ آن لائن کورسز 16جولائی 2017,
21شوال1438ھ