سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جن کی تنخواہ گورنمنٹ کی طرف سے سیونگ اکاؤنٹ میں آتی ہے، وہ کیا کریں؟
والسلام
سائلہ کا نام: أمة اللہ
پتا: ا۔ب۔ج۔
الجواب حامدا و مصليا
وعلیکم السلام و رحمة الله!
تنخواہ کی رقم وصول کرنے میں بہتر یہی ہے کہ گورنمنٹ براہِ راست اپنے ملازم کو تنخواہ ادا کرے، اگر گورنمنٹ کے اصول وضوابط کی وجہ سے کوئی مجبوراً بذریعہ بینک تنخواہ وصول کرتاہے تو یہ فرد گناہ گار نہیں۔ بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کے بجائے کرنٹ اکاؤنٹ کھول لیا جائے۔ اگر گورنمنٹ کی طرف سے سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا لازمی ہو تو سیونگ اکاوٴنٹ بھی مجبوراً کھلوا سکتے ہیں لیکن جو سود کی رقم ملے اسے نکال کر، بغیر ثواب کی نیت سے غرباء پر صدقہ کردیں۔
“احل اللّٰہ البیع وحرّم الربوا۔ [البقرۃ :۲۷۵]
’’ لعن رسول اللّٰہ ﷺ آکل الربوا وموکلہ وشاہدیہ وکاتبہ ‘‘ (سنن أبي داود، با ب في اکل الربوا, 374/2)
“ صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستئجار علی المعاصي والطاعات أو بغیر عقد کالسرقۃ والغصب والخیانۃ والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک، وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل تلک الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء، مکتبہ یحیوی سہارنپور 37/1، دارالبشائر الإسلامیۃ بیروت 359/1، تحت رقم الحدیث: 59)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: 20 ذوالحجہ 1441ھ
عیسوی تاریخ: 10 اگست 2020