حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 عجیب خواب : ام فضل  رضی اللہ عنھما نے ایک عجیب  وغریب  خواب دیکھا یہ بارگاہ  نبوت میں پہنچیں  عرض  کیا  : یارسول اللہ  ! آج  کی رات  میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے ۔ آپ  ﷺ نے پوچھا کیاخواب  دیکھا ہے ؟ گھبرا کر  عرض کرنے لگیں  :

“یارسول اللہ  ! وہ خواب  تو بہت ہی  ناگوار  اور  خوفناک  ہے۔ آپ   نے پھر دریافت  فرمایا  تو ام   فضل  رضی اللہ عنھما   گویا ہوئی  کہ  میں نے  یہ دیکھا تھا کہ  نبی کریم ﷺ کے بدن مبارک  سے ایک ٹکڑا  کاٹا گیا اور وہ ٹکڑا میری گود میں  رکھ دیا گیا۔ حضور  ﷺ نے یہ خواب  سن کر ارشاد فرمایا  :”  آپ  نے تو بہت ہی مبارک خواب  دیکھا ہے ۔ ان شاء اللہ  فاطمہ کے ہاں  لڑکا ہوگا اور اس کی  پرورش تمہاری گود  میں پرورش پائے گا ۔”  ( مشکوۃ المصابیح  :572)

پیدائش  : 5 شعبان  4ھ  میں نواسہ  رسول  جگر  گوشہ بتول  سیدنا  حسین بن علی  رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی  ۔ ( اسد الغابہ)  

نبی اکرم ﷺ سے مشابہت  :

 حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک  رسول اقدس ﷺ کے  جسم اقدس  کے ساتھ بہت مشابہت  رکھتا تھا ۔ حضرت  حسن رضی اللہ  عنہ ، حضور ﷺ  کے جسم مبارک  کے ساتھ  سر سے  لے کر  سینہ تک  بہت مشابہ تھے  اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سینہ کے بعد پاؤں تک نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک  کے   ساتھ  مشابہت رکھتے تھے  ۔ ( ترمذی  )

 تحنیک  اورا ذان  واقامت   :

پیدائش کے بعد  حضرت حسین  رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت  میں پیش کیاگیا،  آپ حضرت  حسین  رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر  بہت زیادہ  خوش ہوئے  اور انتہائی  شفقت  سے اپنے  دہن  مبارک  میں کھجور  چبا کر  حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کے تالو میں لگائی  اور مزید خیر وبرکت  کے لیے اپنا  لعاب مبارک  بھی ان کے منہ میں  داخل فرمایا  اور  دونوں کانوں  میں اذان واقامت  کہی   اور پوچھا  :

علی :  اس کا نام کیارکھا ہے َ عرض کیا حرب۔ فرمایا  :”ا س  کا نام میں نے حسین رکھا ہے ۔” ( کنز العمال  :13/660)  

ختنہ اورعقیقہ  : پیدائش کے ساتویں  دن آپﷺ نے  حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے سر  کے بال  اتروائے  اور ان بالوں  کے وزن کے برابر  چاندی خٰرات  کی اور اسی  دن ختنہ  اور عقیقہ  بھی کیاگیا۔ ( کنز العمال  13/ 659)

حضرات حسنین  رضی اللہ عنہما سے  محبت  :

حضرت  اسامہ  بن زید  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ میں کسی ضرورت  سے آپ  ﷺ کی خدمت  میں حاضر  ہوا۔آپ گھر  سے باہر  اس حال میں تشریف لائے  کہ آپ   گود میں کچھ  رکھے ہوئے   تھے اور چادر اوڑھے  ہوئے تھے ، میں جب   اپنے کام سے  فارغ ہوگیا  تو عرض کیا : یہ کیا  ہے ؟  آپﷺ نے چادر ہٹادی ۔ میں نے دیکھا کہ ایک جانب  حسن رضی اللہ عنہ اور دوسری  جانب  حسین رضوان اللہ اجمعین   ہیں اور فرمایا : اے اللہ میں ان  دونوں سے محبت   کرتا ہوں ۔ آپ  بھی ان سے  محبت فرمائے   اور جو ان سے  محبت  کرے اور اس کو بھی اپنا محبوب  بنالیجئے ۔” (  ترمذی  :2/218)

جنتی  نوجوانوں کے سردار : حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  کہ ایک رات  میں حضور ﷺ کی خدمت  میں رہا تو میں نے ایک شخص کو دیکھا ،آپﷺ نے فرمایا کیاتو نے اسے دیکھا تھا؟ میں نے عرض  کیا: جی ہاں  یا رسول اللہ  ۔ فرمایا : یہ فرشتہ  آج سے پہلے  کبھی بھی میرے  اوپر نازل  نہیں ہوا  جب سے   مجھے نبوت  ملی ہے۔  اس نے مجھے خبر دی   ہے کہ حسن اور حسین جنتی  نوجوانوں  کے سردار  ہیں ۔ ( کنز العمال :13/665)  

ناگ محافظ  بن گیا:

حضرت سلمان  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں  کہ  ہم  لوگ حضور ﷺ کے ارد گرد  بیٹھے  ہوئے تھے  کہ اتنے میں  حضرت ام ایمن  رضی اللہ عنہ آئیں  اور انہوں نے  کہا  یارسول اللہ  حسن اور حسین  گم   ہوگئے ہیں ۔ اس وقت  دن چڑھ چکاتھا، حضور  ﷺ نے صحابہ  سے فرمایا  :اٹھو اور میرے دونوں  بیٹوں کو تلاش کرو۔حضور  ﷺ چلتے رہے  یہاں  تک  کہ ایک پہاڑ  کے دامن  میں  پہنچ گئے  تو دیکھا کہ حضرت  حسن اور حضرت حسین ایک  دوسرے سے چمٹے ہوئے  کھڑے ہیں  اور پاس ہی ایک  کالا ناگ  اپنی دم   پر کھڑا ہے۔ جس کے منہ  سے آگ  کی چنگاریاں  نکل رہی ہیں ۔ (غالباً اللہ نے  ناگ بھیجا تھا  کہ بچوں کو آگے جانے سے روکے  ) حضور ﷺ جلدی  سے اس ناگ کی طرف بڑھے ، اس ناگ  نے حضور ﷺ کو مڑ کر  دیکھا اور چل  پڑا۔ آگے جاکر  ایک سوراخ  میں داخل ہوگیا۔ پھر حضور ﷺ ان دونوں  کے پاس گئے ۔ دونوں  کو ایک  دوسرے سے جدا کیا۔ دونوں کے چہروں پر ہاتھ پھیرا  اور فرمایا: میرے  ماں باپ  تم دونوں  پر  قربان  ہوں ، تم دونوں  اللہ کے ہاں کتنے قابل  اکرام ہو پھر ایک  کو دائیں کندھے  پر اور دوسرے  کو بائیں کندھے پر بٹھا لیا۔ میں نے  کہا تم دونوں  کو خوشخبری  ہو کہ تمہاری سواری  بہت ہی عمدہ ہے ۔ حضور ﷺ نے   فرمایا  : یہ دونوں  بہت عمدہ سوار  ہیں اور ان  کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ ( کنز العمال :13/662)

شہادت کی پیشن گوئی :

ام فضل  رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دن میں حضرت حسین  رضی اللہ عنہا کو گود میں   لیے ہوئے نبی  کریم ﷺ کے پاس حاضر  ہوئی اور حضرت  حسین رضی اللہ عنہ   کو آپ کی گود میں  بٹھادیا، میں کسی کام میں لگ گئی ، اچانک   جب میری نظر پڑی  تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ  کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ۔حیرت  سے میں نے دریافت  کیا تو فرمایا  : میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف  لائے تھے  انہوں نے مجھے خبر دی کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ میرے امتی میرے اس پیارے بیٹے کو قتل کردیں گے۔ ام  فضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دوبارہ تعجب سے  معلوم کیا : حسین  ہی کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آئے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا :” ہاں ” ( مشکوۃ :572)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں