شک کی بنا پر حرمت رضاعت کا حکم

سوال ۔ ہم دو بہنیں ہیں۔ میرا بیٹا برہان سن 2005 میں , 17مٸی کو پیدا ہوا تھا , پیداٸش کے پہلے مہینے میں نے اسے دودھ پلانے کی بہت کوشش کی لیکن حلق میں مسٸلہ ہونے کی بنا پر وہ نہیں پی سکا ۔ اس لیے میں نے اسےدودھ پلانا چھوڑدیا تھا ۔ پھر میری بہن سن 2007 ,29نومبر میں حج پہ گٸی اور اپنی بیٹی انشرح کو میرے پاس چھوڑ کر گٸی, وہ 2006 ,18نومبر میں پیدا ہوٸی تھی ۔ وہ بچی بہت روتی تھی ڈاکٹر نے اسے ماں کا دودھ پلانے کا کہا ,مجبورا میں نے اسے دودھ پلایا لیکن وہ پھر بھی روتی رہتی تھی دو تین مرتبہ اسے پلانے کی کوشش کی لیکن وہ بچی چپ نہیں ہوتی تھی, معلم نہیں اسے دودھ ملتا تھا یا نہیں, پھر میں نے ایک عورت کو دودھ پلانے کے لیے رکھا اس کے بعد وہ بچی سکون سے رہنے لگی, اب واللہ اعلم مجھ سے بچی کو دودھ ملا یا نہیں ملا مجھے نہیں معلوم ۔ یقینا اگر دودھ ملتا تو بچی چپ ہوجاتی ۔ اپنے بیٹے کے ڈھاٸی سال کے بعد میں نے انشرح کو دودھ پلایا تو کیا وہ ڈھاٸی سال میں دودھ خشک نہیں ہوگیا ہوگا ؟ جبکہ میرے بیٹے نے بھی دودھ نہیں پیا, اب سوال یہ ہے کہ کیا برہان اور انشرح رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ صورت میں جب آپ کو شک ہے کہ آیا دودھ تھا یا نہیں اور بچی نے دودھ پیا یا نہیں تو محض شک کی بنا پر برہان اور انشرح کے درمیان حرمت رضاعت تو ثابت نہیں ہوگی، اس لیے ان دونوں کے درمیان نکاح فی نفسہ جاٸز ہے, البتہ احتیاط اس میں ہے کہ مذکورہ لڑکے اور لڑکی کا آپس میں نکاح نہ کرایا جاٸے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات ۔

1 ۔ وفي القنیۃ : إمرأۃ کانت تعطي ثدیہا صبیۃً واشتہر ذٰلک بینہم ، ثم تقول : لم یکن في ثدیي لبن حین ألقمتہا ثدي ولم یعلم ذٰلک إلا من جہتہا جاز لإبنہا أن یتزوج بہٰذہ الصبیۃ ۔ ( شامي 296,4 بیروت ، 401,4 زکریا ، البحر الرائق 222,3 )

2۔۔”(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكًّا، ولوالجية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 212):

(قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك.”

3 ۔۔۔قوله قليل الرضاع وكثيره سواء إذا تحقق في مدة الرضاع تعلق به التحريم وبه قال مالك أما لو شك فيه بأن أدخلت الحلمة في فم الصغير وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك ۔(فتح القدیر ،کتاب الرضاع ،304/3)

4۔۔۔المرأة إذا جعلت ثدیہا فی فم الصبي ولاتعرف أمصّ اللبن أم لا؟ ففي القضاء لاتثبت الحرمة للشک وفي الاحتیاط تثبت (فتاوی ہندیة: 410,1)۔

5۔۔۔۔حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے یقین محکم کا ہونا ضروری ہے محض شک کی بنا پر حرمت ثابت نہ ہوگی البتہ احتیاط اس میں ہے کہ مذکوہ بچی کا نکاح اس عورت کے کسی بھی بیٹے کے ساتھ نہ کیا جاٸے ۔ (فتاوی حقانیہ , 402,4)

فقط واللہ اعلم بالصواب

22رجب 1443

24فروری2022

اپنا تبصرہ بھیجیں