شان فوڈز کے چئیرمین سے گفتگو

پاکستان کی لیڈنگ   ملٹی نیشنل کمپنی شان  فوڈز کے چئیر مین جناب  سکندر  سلطان  کی شریعہ   اینڈ بزنس سے گفتگو

 شان فوڈر کا  شمار  پاکستان کی چند  گنی ، چنی ، کامیاب  اور ترقی یافتہ کمپنیوں میں ہوتا ہے ۔ دنیا کے تقریبا  5 6 ممالک  میں شان فوڈز براہ راست  کاروباری  سرگرمیاں  جاری رکھے  ہوئے ہیں۔  بلاشبہ   کمپنی  کی حیرت انگیز ترقی کا سہرا  چئیر مین جناب سکندر سلطان کے  سر جاتا ہے ۔ آپ  نے آئی بی   اے  سے ایم بی اے   مکمل کیا ۔ تجارت   کے عروج   تک پہنچے ،   مگر دین  اور شریعت  کا دامن   ہاتھ  سے   نہیں  جانے دیا۔ شان  فوڈز  ایک ایسی کمپنی  ہے جہاں شریعت  کے ہر قانون   کو پوار  کرنے اور اللہ کا ہر حکم  ماننے   کی بھرپور  کوشش کی جاتی ہے   ۔ کمپنی  کے تمام ملازمین  نمازی ہیں۔ تبلیغی  اور دعوتی  سرگرمیوں  کا حصہ  بنتے   ہیں۔ جبکہ  تمام معاملات  کو شریعت  کے دائرے   میں پوار  کرنے   کے لیے  ایک مکمل  اور  خود مختار   شریعہ   ڈیپارٹمنٹ  بھی سر گرم   عمل ہے ہفت روزہ  شریعہ اینڈ  بزنس نے اپنےقارئین  تک ” شریعت   اور تجارت ساتھ  ساتھ”  کی اس عملی  تصویر  کو پیش  کرنے  کے لیے جناب  سکندر  سلطان  کا تفصیلی   انٹرویو کیا۔  اس امید  کے ساتھ  کہ دیگر  تمام کمپنیاں  بھی شریعت  کے تمام  احکامات   کو پوار  کرنے کی بھرپور کوشش کریں   گی۔

شریعہ اینڈ بزنس : برائے مہربانی  اپنے تعلیمی  اور تجارتی  پس منظر  سے آگاہ  کیجئے ۔

سکندر سلطان  : پچھلی سات  پشتوں   سے میرے  آباؤ اجداد  سب بزنس کی فیلڈ میں ہی ہیں ۔ اسی طرح  تعلیم  سے بھی وابستہ  رہے ۔ میرے  والد صاحب  27 سال  تک انگلینڈمیں رہے ۔ وہیں تعلیم   حاصل  کی اور کیریئر   کا آغاز بھی کیا۔ تعلیم  میں نے  آئی بی  اے میں حاصل   کی اور یہاں  سے ایم بی  اے  مکمل کیا ۔

شریعہ اینڈ بزنس: مصالحہ جات  اور ریسپیز  کے بزنس میں حادثاتی  طور  پر آنا ہوا یا کوئی   خاص  واقعہ  اس کا سبب بنا  ؟

سکندر سلطان  : دہلی خاندان کھانوں   اور مصالحوں  کے  حوالے  سے پہچانا  جاتا تھا۔ ہمارے والد صاحب  کا شمار دہلی کے مشہور ترین لوگوں   میں ہوتا تھا ۔ تبلیغی   جماعت  کے بانی  حضرت  مولانا الیاس  دہلوی  کے دوستوں   میں ان  کا شمار  ہوتا تھا۔ جب  میں چھ ساتھ سال کا تھا  تو کھانا  پکانا شروع  کردیا۔ ترکش توش، انڈہ  فرائی ، گلاب جامن  وغیرہ  بنالیتا تھا ۔ انڈہ  بنانا  ایک   بہت بڑا فن  ہے۔ آج  تک  میرے پاس چھ  سات کک   کام کر چکے ہیں  مگر ہر کسی کو انڈا بنانا میں نے سکھایا ۔ا یک بار ایسا  ہوا کہ ہماری والدہ لاہور  تشریف   لے گئیں ۔ وہ گئی  تو 20 دن  کے لیے تھیں   مگر انہیں والدین  نے روک لیا اور وہ دو ڈھائی  ماہ  وہاں رہیں ۔ ہمارے ہاں  صرف گرم مصالحہ خشک استعمال  ہوتا  باقی تمام مصالحے جات  گیلے ہوتے ۔ انہیں صبح سویرے   پیسہ جاتا تھا۔ گھر  میں چھ سات قسم  کی برنیاں تھیں  جن میں مختلف  مصالحہ  جات پسے ہوئے  رکھے  ہوتے ۔ جب  کبھی   گھر میں  کوئی کھانا  پکانا ہوتا تو یہی  مصالحہ جات  بھی ختم  ہوگئے ۔ ہمارے   والد صاحب  نے فرمایا  کہ بھائی مصالحے  بناؤ۔ہمارے ماسی کو کچھ پتا نہیں تھا ۔ میری بڑی بہن نے بنایا  مگر وہ خراب بنا۔ا س میں اجلا لگ گیا اور مزیدار بھی  نہیں  تھا۔ میرے والد صاحب نے  مجھے فرمایا  :” بھئی   ! تم بناؤ  نا! میں نے ترکیب  لڑائی مصالحہ  تیار کیا۔ پہلاکھانا  بنا تو اتنا مزیدار بنا کہ ہم   سب بھی  کھانا چٹ  کر گئے  اور ہمارے   ملازمین   بھی، کھانا کم پڑگیا ۔ میرے والد صاحب  نے مجھےا س زمانے  میں 100 روپے انعام  دیا۔ پھر مجھے فرمایا  کہ یہ تو گوشت کا مصالحہ   ہوگیا اب تم دال  ، حلیم  اور دوسرے   تمام  مسالحہ جات  بھی بناؤ  ۔میں  نے وہ سارے مصالحے  بھی بناڈالے ۔ اس کے بعد میری  والدہ واپس آگئیں ۔ میرے  والد صاحب  نے فرمایا  کہ اب تم   نہیں بناؤ گی ،مصالحہ جات یہ  بچہ بنائے گا ۔ اس وقت  سے میرے مصالحہ جات   چلنا شروع  ہوگئے ۔ دوسرے رشتہ دار  بھی  مانگنے لگے  ۔یہاں تک  کہ ہماری بہنوں کی امریاک  شادی ہوگئی  تو وہ بھی  گرم  مصالحہ  میرا بنایا ہوا استعمال  کرتیں  ۔میں انہیں گرم مصالحہ بھجوادیا کرتا   تھا۔  

اب ہوا یہ کہ  میں ابتداء میں  فوٹو گرافی ، فلم سازی   اور  ڈاکیو منٹریز بنانے   کی طرف آگیا ۔ سب  سے پہلی  ڈاکیو منٹری   میں نے  پی آئی اے  پر بنائی ۔ جس کا  مرحوم صدر  ضیاء   الحق نے مجھے براہ راست حکم دیاتھا ۔ا س کے بعد آنکھ  اوچر بینائی  سے متعلق ایک فلم بنائی  ۔ تقریبا سات سال  تک  میں اس پیشے  سے وابستہ رہا ۔ مگر   پھر میں  نے فلم  بنانے سے توبہ  کر لی  ۔اسی  دوران مصالحہ جات  بنانے اور امریکہ  بھیجنے کا سلسلہ  جاری رہا ۔ وہاں میری  بہنیں   کچھ مصالحے   بیچ  بھی دیتیں  ۔میں نے سوچا کیوں نہ مصالحہ زیادہ مقدا میں  بنوا   کر رکھ لوں ۔ میں نے جاکر   دس بیس کلو مصالحہ پسوایا۔جس چکی  سے پسوایا تھا اس چکی والے نے   کچھ مصالحہ   ایک دوکاندار   کو  دے دیا۔ دوکاندار  سے وہ مصالحہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ وہ پوچھتا پاچھتا  مجھ تک پہنچااور  اور مزید مصالحے کا مطالبہ  کرنے لگا  ۔ میں ے  کچھ تو دیا پھر کہا کہ مزید نہیں  ہے ۔ دوکاندار کا اصرار بڑھتا گیا   اور بالآخر   میں نے ہتھیار  ڈال  دیے ۔ میں  نے دوکاندار  کو تھوڑا سا مصالحہ بناکر دینا شروع کردیا ۔ پھر جب میں نے فلم بنانا   چھوڑا تو سوچا کیوں نہ  اسی کام  میں  ہاتھ ڈال دوں ۔ میرے  پاس   کچھ بھی  نہیں تھا۔ا پنے گھر  کے گیراج  میں ہی ایک ملازم  کے ساتھ کام  شروع کیا ۔ ایک سے  دو اور  دو سے دس  ملازم  ہوگئے  اور اللہ کا شکر  ہے کہ میرے  مصالحے بکتے چلے گئے ۔ا ب میں نے  باقاعدہ پیکنگ  شروع کردی ۔ شان  کا نام رکھنے کا مرحلہ  بھی بڑا  دلچسپ  تھا۔ میں اپنی والدہ  سے مشورہ کررہا تھا  کہ نام کیا  ہونا چاہیے  والدہ نے  فرمایا   : ” نام  تو ایسا ہو جس میں اللہ کی شان   جھلکے  ” ۔ مٰں  نے کہا لو پھر نام   ہوگیا ” شان  ” ۔ لوگوں  کے لیے  شان اور “ہمارے  لیے اللہ کی شان  “۔ جب   ہم  نے ” شان  فوڈز ” قائم کی  تو اس کے دس اصول بنائے ۔ اس میں جہاں   منافع وغیرہ    سے متعلق اصول لکھے گئے  تھے  ، وہیں  ہم نے  یہ بھی   لکھا کہ ہم اپنے کام    کی وجہ  سے  اللہ کے حکم   کو نہیں توڑیں گے   ۔

شریعہ اینڈ بزنس:  آپ نے جب کمپنی بنائی تو سب سے زیادہ توجہ کس چیز پر دی  ؟

سکندر سلطان  : سب سے زیادہ توجہ کوالٹی پر دی ، کیونکہ ہمارا یہ خیال ہوتا تھا کہ ہم لوگوں کےا مانت دار ہیں ۔ لوگ جو پیسے  ہماری  پروڈکٹ   کے بدلے میں  ہمیں دیتے ہیں  ، وہ یہ سمجھتے ہیں  کہ اس میں  بہترین   چیز ہوگی ، لہذا  ہم بہترین   کے علاوہ   استعمال   ہی نہیں کرتے   ۔یہ ہماری پالیسی   ہے۔ جب  تک دم  میں  دم ہے   ،یہی پالیسی  رہے گی   ۔

شریعہ اینڈ بزنس:  ہمارے ہاں کی  “SMEs ” ملٹی نیشنل میں کنورٹ   نہیں ہو پارہیں ۔ اس کی کیاوجہ  ہے  ؟

سکندر سلطان  : اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ  ہامرا بزنس  مین کارپوریٹ  کلچر  کو اپنانے   سے ڈرتا ہے ، کیونکہ  کار پپوریٹ  کلچر  میں یہ ہے کہ   ” آپ   کچھ بھی   نہیں  ہو”   اصل چیز  سسٹم   ہے۔  اس  بات کی نفی  کرنا پڑتی  ہے کہ کام   آپ کی وجہ سے  یا آپ کی عقل  وجہ سے  ہورہا ہے ۔ اس وقت  یں آپ  کے سامنے  بیٹھا ہوں ، کوئی  آدمی ملاقات  کے لیے آرہا ہے  نہ ہی میں کچھ کر رہاہوں ۔ میں نے یہ سوچا ہوا ہے کہ کام کیرے لیے ہے ،میں کام کے لیے نہیں ہوں ۔ بڑے بڑے   ٹائیکون  یہ سمجھتے ہیں   کہ وہ  کام  کے لیے ناگزیر   ہیں ، ہماری  وجہ سے سب  ہورہا ہے ،حالانکہ  یہ بیوقوفی  کی بات ہے ،سب کچھ  تو اللہ  سے ہورہا ہے ، وہ موجود نہ رہیں   تو بھائی   کام  تو  چلتا رہے گا   ،

بس یہ  ہے کہ کام   دوسرے   کے حوالے   کرنا ذرا حساس   معاملہ ہے ۔ بہت   کم قابل  اعتماد لوگ   ملتے ہیں  ۔ پاکستان  میں کئی کمپنیوں  کے نام لے سکتا ہوں ، جن کے ملازمین  نے اختیارات   کا غلط استعمال  کر کے مالکان   سے کمپنیاں   ہتھیالیں ۔ بہرحال   deligation،  ایچ آر،سسٹم  کی بالا تری  اور پروسجر   کی پابندی  جیسی  شیزیں کارپوریٹ   کلچر کی بنیاد  یں ہیں ۔ ہمارا  بزنس مین انہیں سے خائف  رہتا ہے  ۔پھر یہ بات   بھی ہے کہ   سسٹم  بننے میں ایک وقت   لگتا ہے ۔کئی سال  لگتے ہیں ۔اسی طرح  مینیجمنٹ  کا ذہن  تبدیل  کر کے   اپنے ذہن  سے ہم  آہنگ  کرنے  میں بھی وقت   لگتا ہے ۔ تاہم   یہ ضرور ذہن   میں رہنا چاہیے   کہ یہ آپ  کے وژن کے بغیر   کبھی نہیں ہوگا۔ آپ خود ذہن سازی   اور   دھیرے دھیرے  ہدف  تک پہنچنے   کی کوشش کرنا ہوگی  ۔

شریعہ اینڈ بزنس: اب  تک شان   نے کون    کون سی کامیابیاں   حاصل کرلی ہیں ؟  

سکندر سلطان  :  سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ  لوگوں  کے ذہن  میں یہ بات ڈال  دی کہ  “اللہ ہیں” ! کاروبار   یا عہدے پر آنے   کے بعد لوگ  یہ سمجھتے ہیں کہ  یہ ہم سے  ہورہا ہے   ۔ آج اگر   آپ ہمارے   کسی ساتھی   سے کچھ کرنے کا کہیں گے  تو وہ یہ کہے گ ا  ” بھئی اللہ سے مانگوں گا امید   ہے ان شاءاللہ  ہوجائے گا۔” تو لوگوں کی توجہ   اللہ کی طرف   کرنا یہ “شان  ” کی سب سے   پہلی اور  بڑی  کامیابی ہے

شریعہ اینڈ بزنس: لیو  برادرز اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں  صدیوں سے چل  رہی ہیں ، جبکہ  ہمارے  ہاں بس اگلی نسل  ہی بٹوارہ  کر کے  بیٹھ  جاتی ہے ۔ اس پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے  ؟

سکندر سلطان  : اس کا یہ طریقہ  ہے  کہ جب  آپ کی کمپنی  کسی حد تک  ڈیویلپ  ہوجائے  تو اب  اسے پبلک  کے حوالے  کردیں ۔ جب کمپنی  کو پرائیوٹ  لمیٹڈ  کردیتے ہیں  تو وہ آپ  کی تھوڑی سی  ہوتی ہے ، جبکہ  دیگر  بہت سے لوگ  بھی اس کے حصہ  دار ہوتے ہیں  ۔تب  آپ ہر چیز اپنی مرضی سے نہیں کرسکتے ۔ اور ایسی  کمپنیاں  ہی طویل  عرصے تک چل  سکتی ہیں ۔ دوسری  اہم  ترین   بات یہ کہ فیملی   بزنس گورننس کی پلاننگ  ہمارے ہاں نہیں ہوتی ۔ یعنی   آپ کی موت  کے بعد  اس سارے معاملات کا ذمہ دار   کون ہوگا  ؟  ہمارا شان  فوڈز  کا بزنس  بھی فیملی  بزنس ہے ۔ گزشتہ  سال ہم نے انڈیا  کے ایک فیملی  بزنس بھی گورننس کے ماہر  سے ملاقات  کر کے  سارے معاملات   طے کرلیے ہیں ۔ یہ   بات  بھی ذہن  میں رکھیں   کہ یہ کام  کنسلٹ   سے ہی   کروانا چاہیے ، کیونکہ  اسے تجربہ  ہوتا ہے ۔ اس نے  کئی لوگوں  کے بگڑے  ہوئے کیس سلجھائے  ہوتے ہیں  ۔

شریعہ اینڈ بزنس: تاجروں  کے نام کیا پیغام دیں  گے ؟

سکندر سلطان  :   میرا پیغام  یہ ہے کہ کاروبار  اگر لوگوں  کے لیے  کریں  تو اس میں بہت برکت  ہوگی ، بہت  نفع ہوگا ۔ خود سے  خود تک  کی منصوبہ  بندی  کرنا مناسب  نہیں۔  جو کام  خدمت   کے جذبے   سے   کیاجائے گا، وہ ضرور  برکت  والا  ہوگا ۔ اور  یہ بات  بھی ہمیشہ  ہاد رکھنے   کی ہے  کہ خود  اپنے آپ   سے اوپر   کسٹمر  سے سچ  بولنا  سب سے  زیادہ مشکل   ہوتا ہے ۔ مگر کامیابی   سچ میں ہی ہے  ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں