ترقی پسندانہ ٹھاٹ باٹ

(٣٠) عَنِ ابْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ  اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِؐ قَالَ سَیَکُوْنُ فِی آخِرِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ رِجَالٌ یَرْکَبُوْنَ عَلَی الْمَیَاثِرِ حَتَّی یَاتُوْا اَبْوَابَ مَسَاجِدِھِمْ نِسَائُھُمْ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلَی رُؤُسِھِنَّ کَاَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْعِجَافِ اِلْعَنُوْھُنَّ فَاِنَّھُنَّ مَلْعُوْنَاتٌ لَوْ کَانَتْ وَرَائَکُمْ اُمَّۃٌ مِنَ الْاُمَمِ لَخَدَمَھُمْ کَمَا خَدَمَکُمْ نِسَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ۔ (المستدرک للحاکم ج٤،ص٤٣٦)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو زین پوشوں پر بیٹھ کر مسجد کے دروازوں تک پہنچا کریں گے،ان کی عورتیں لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی اوران کے سروں پر لاغر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح بال ہوں گے،ان پرلعنت کروکیونکہ وہ ملعون ہیں۔ اگر تمہارے بعد کوئی اور امت ہوتی تو تم ان کی اسی طرح غلامی کرتے جس طرح پچھلی امتوں کی عورتیں تمہاری لونڈیاں بنیں۔

فائدہ: دورِ حاضر میں لوگوں کا آرام دہ ،چمکیلی گاڑیوں پر سوار ہو کر مسجد تک پہنچنے کا پرانے زمانے میں تصور بھی نہ تھا یقینا یہ بھی گھوڑے کی پر تکلف زینوں پر بیٹھنے کی ایک شکل ہے۔ مالداروں کے یہ تنعم و آرائش اور ان کی بیگمات کی بے پردگی اور سر کے بالوں کو جوڑے کی شکل میں بنائے پھرنا معاشرے کی روایت بنتی جارہی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں