تحنیک کا طریقہ اور وقت

سوال:السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!

1.میرا سوال یہ ہے کہ، پیداٸش کے بعد بچے کی تحنیک کا سنت طریقہ کیا ہے؟

2. ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ سب سے بچے کو شہد چٹایا جاۓ چاہے جو بھی چٹاۓ، پھر ماں دودھ پلاۓ گی، اگر کوٸ صالح، دین دار شخص فوری موجود نہ ہو تو یہ تحنیک بھی سنت کہ موافق ہے کیا کہ پہلے ماں دورھ پلانا شروع کر دے اور پھر ایک دو دن بعد اس محترم بندے کے پاس پہنچ کر تحنیک کروالی جاۓ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

سوال نامہ میں دو سوالات پوچھے گئے ہیں، دونوں کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:

1.تحنیک (گھٹی) ایک سنت عمل ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی نیک، صالح اور متبع سنت شخص کے منہ میں چبائی ہوئی کھجور یا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز، مثلاً: شہد وغیرہ بچے کے منہ میں ڈال کر اس کے تالو پر مل دی جائے، تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک آدمی کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندر منتقل ہو جائیں۔

2۔ تحنیک سے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں تحنیک کے وقت کی کوئی صراحت تو نہیں ،البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم کی کوشش ہوتی تھی کہ بچے کی پیدائش کے فوری بعد ان کو تحنیک کے لیے آپ ﷺ کے پاس لایا جائے تاکہ سب سے پہلے بچے کے منہ میں جانے والی چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک ہو، اس لیے بہتر یہی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد بلا تاخیر کسی نیک شخص سے تحنیک کروالی جائے اور تحنیک کروانے تک بچے کو کوئی غذا نہ دی جائے، تاکہ پہلی غذا جو بچہ کے پیٹ میں جائے وہ نیک شخص کا لعاب ہو۔تاہم جہاں فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہو تو بچے کی جان بچانے کی خاطر ماں کا دودھ دے دیا جائے اور پھر موقع ملنے پر کسی نیک صالح شخص سے تحنیک کروالی جائے۔

“عن اسماء بنت أبي بكر (في حديث طويل) ثم أتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضعته في حجره، ثم دعا بتمرة فمضغها، ثم تفل في فيه، فكان أول شيء دخل جوفه ريق رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم حنكه بالتمرة، ثم دعا له فبرك عليه”.

(صحيح البخاري:7/ 84)

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے صاحب زادے (عبداللہ بن زبیر) کی پیدائش کے بعد انہیں خود بارگاہِ عالی میں لے کر حاضر ہوئیں، رسول اللہ ﷺ نے کھجور چباکر تحنیک فرمائی، انہیں برکت دی، ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا، خود فرماتی ہیں کہ پہلی چیز جو میرے بچے کے منہ میں گئی وہ رسول اللہ ﷺ کا لعاب تھا، ان کا نام عبداللہ تجویز کیا گیا۔

” عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحنكهم”.

صحيح مسلم (3/ 1691)

“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے پاس (نو زائیدہ) بچے لائے جاتے چنانچہ آپ ﷺ ان کے لئے برکت کی دعا کرتے اور ان کے تحنیک کرتے”۔

“عن ابي موسي قال: “ولد لي غلام فأتيت به النبي (صلى الله عليه وسلم) فحنكه بتمر ودعا له بالبركة ودفعه إلي. وكان أكبر ولد أبي موسى.

(صحیح مسلم: 2145)

حضرت ابو موسی اشعری اپنے بیٹے کی گھٹی دینے کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:’’میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، اس کو کھجور کی گھٹی دی، اس کے لئے برکت کی دعا کی اور مجھے واپس دے دیا۔ یہ حضرت ابو موسی کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔‘‘

“قوله: (وتحنيكه) ، بالجر عطف على قوله: تسمية المولود. أي: في بيان تحنيك المولود، وهو مضغ الشيء ووضعه في فم الصبي، وذلك تحنيكه به، يقال: حنكت الصبي إذا مضغت التمر أو غيره ثم دلكته بحنكه والأولى فيه التمر فإن لم يتيسر فالرطب وإلا فشيء حلو، وعسل النحل أولى من غيره. ثم ما لم تمسه النار.

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (21/ 83)

“اتفق العلماء على استحباب تحنيك المولود عندولادته بتمر فإن تعذر فما في معناه وقريب منه من الحلو فيمضغ المحنك التمر حتى تصير مائعة بحيث تبتلع ثم يفتح فم المولود ويضعها فيه ليدخل شيء منها جوفه ويستحب أن يكون المحنك من الصالحين وممن يتبرك به رجلا كان أو امرأة فإن لم يكن حاضرا عند المولود حمل إليه … وفي هذا الحديث فوائد: منها: تحنيك المولود عند ولادته وهو سنة بالإجماع كما سبق. ومنها: أن يحنكه صالح من رجل أو امرأة. ومنها: التبرك بآثار الصالحين وريقهم وكل شيء منهم. ومنها: كون التحنيك بتمر وهو مستحب، ولو حنك بغيره حصل التحنيك، ولكن التمر أفضل”.

شرح النووي على مسلم (14/ 122)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں