والدین کا زندگی میں اپنے بعض وارثوں کو ئی چیز ہبہ کرنے کا حکم 

فتویٰ نمبر:984

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! میرے تین سوالات ہیں:

1. ایک یہ کہ جس طرح باپ کی میراث میں بیٹے کو دو اور بیٹی کو ایک حصہ ملتا ہے،تو کیا ماں کی میراث میں بھی یہی اصول رہتا ہے کہ بیٹے کو بیٹی کو دوگنا ملتا ہے؟

2. دوسرا یہ ہے کہ ایک عورت نے اپنی زندگی میں ہی اپنا زیور شوہر اور بیٹوں کی اجازت سے اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کے نام کر دیا ہے اور باقاعدہ اس کو لکھوایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا شریعت میں ایسا کرنا جائز ہے ؟

3. تیسرا یہ کیا والدین کو اپنی زندگی میں ہی اپنی وراثت اپنے ورثا میں تقسیم کرنا ضروری ہے کیا اور اگر نہیں کریں گے تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے۔

والسلام

سائل کا نام:رابعہ

الجواب حامداو مصليا

1. جی ہاں ،وراثت میں بیٹے کو بیٹی کا دوگنا ملتا ہے خواہ وراثت ان کو باپ کی طرف سے مل رہی ہو یا ماں کی طرف سے ۔

﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾

(سورۃ النساء:11)

2. والدین اگر اپنی زندگی میں اپنی ملکیت میں سے اپنے بعض ورثا کے نام کچھ کرنا چاہے تو یہ نہ میراث ہے اور نہ ہی وصیت،بلکہ ہبہ ہے.اگر وہ چیز ہبہ کرنے والے نے اس وارث کے قبض میں دے دی تو یہ ہبہ مکمل ہو گیا اور وہ وارث اس چیز کا مالک بن گیا.والدین کا اپنی بعض اولاد کو کچھ ہبہ کرنا شرعاً جائز ہے بشرط یہ کہ اس میں دیگر وارثوں کو وراثت سے محروم کرنے کی نیت نہ ہو. اگر اس نیت سے ہو تو وہ شدید گناہ گار ہوں گے،اس صورت میں بعد والوں کو چاہئیے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاں تک ہو سکے ان کے گناہ کی تلافی کی کوشش کریں۔

والدین اپنی زندگی میں کسی ایک بچے کواگرچہ کچھ دینے کا اختیار رکھتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہوئے تمام اولاد کے درمیان تقسیم میں مساوات کا خیال رکھیں اور کسی ایک کو بلاوجہ ترجیح نہ دیں۔ ہاں اگر کسی معقول وجہ سے، مثلاً :کوئی اولاد زیادہ غریب یا دیندار یا خدمت گذار ہے،اس لیے اسے زیادہ دیدیں تو یہ بھی جائز ہے. 

مذکورہ صورت میں چونکہ والدہ نے شوہر اور بیٹوں کی رضا مندی سے اپنی بیٹی کے نام زیور کیا ہے لہذا اس میں شرعا کوئی حرج نہیں. 

3. جی نہیں!والدین کو اپنی زندگی میں اپنی وراثت تقسیم کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے،کیونکہ وراثت کے شرطوں میں سے ایک شرط مورث(جس کی میراث ہے)کی موت ہے۔وراثت ہوتی ہی موت کے بعد ہے زندگی میں وراثت تقسیم نہیں کی جاتی۔تاہم اگر کوئی اپنی زندگی میں ہی یہ کام کرنا چاہے ،تاکہ بعد میں اس کے ورثا میں انتشار و اختلاف نہ آئے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

“وأما إذا أراد الرجل أن یقسم أملاکہ فیما بین أولادہ فی حیاتہ لئلا یقع بینہم نزاع بعد موتہ، فإنہ و إن کان ہبۃ فی الاصطلاح الفقہی ولکنہ فی الحقیقۃ، والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت وحینئذ ینبغی أن یکون سبیلہ سبیل المیراث۔”

(تکملۃ فتح الملہم، کتاب الہبات، مذہب الجمہور، التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ، اشرفیہ دیوبند ۲/۷۵)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:20 صفر، 1440ھ

عیسوی تاریخ:29 اکتوبر،2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں