ولی اور کرامت کی حقیقت پہلی قسط

ولی اور کرامت کی حقیقت پہلی قسط

دنیا کے تمام مذاہب کی طرح دینِ اسلام میں بھی ابتدا سے ہی خرق عادت کے متعدد واقعات موجود ہیں۔ خرقِ عادت در اصل وہ عمل ہے جس کا احاطہ انسان کی عقل کسی خاص زمانہ ومکان میں بظاہر نہیں کرپاتی ہے۔ اسی عمل کو دینی اصطلاح میں معجزے اور کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

*ولی کتنے ہی بڑے درجہ کو پہنچ جائے مگر نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔

*کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا کیسا ہی پیارا ہوجائے مگر جب تک انسان کے ہوش وحواس باقی ہوں اسے شریعت کا پابند رہنا فرض ہے۔ نماز روزہ اور کوئی عبادت معاف نہیں ہوتی۔ گناہ کے کام اس کے لیے جائز نہیں ہوتے۔

*جس شخص کا عمل شریعت کے خلاف ہو وہ اللہ تعالیٰ کا دوست نہیں ہوسکتا۔اگر اس کے ہاتھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جو عام لوگ نہیں کرسکتے تو وہ جادو ہے یا نفسانی اور شیطانی چال ہے۔ اس کے بارے میں ولی اور بزرگ ہونے کا عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے۔

*اولیاء کرام کو بعض راز کی باتیں خواب یا بیداری میں معلوم ہوجاتی ہیں، اسے کشف اور الہام کہتے ہیں، اگر وہ شریعت کے مطابق ہے تو قبول ہے (یعنی ایسے الہام کو صحیح سمجھنا اور اس پر عمل کرنا جائز ہے)اور اگر شریعت کے خلاف ہے توقبول نہیں۔

سوشل میڈیا پر مخصوص ذہن رکھنے والے بعض حضرات کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عناصر اللہ کے نیک اور متقی بندوں سے کسی خرق عادت عمل کے ظاہر ہونے کے یکسر منکر ہیں، جب کہ قرآن کریم کا ہر طالب علم ایسے متعدد واقعات سے واقف ہے جن کاذکر انبیاء کرام اور متقی لوگوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اسی لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ ۱۴۰۰ سال سے اس بات پر مکمل طور سے متفق ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح خرقِ عادت عمل (یعنی معجزہ) ابنیاء کرام کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے، وہیں خرقِ عادت عمل (یعنی کرامات) اپنے متقی پرہیزگار بندوں کے ذریعہ بھی ظاہر کرتا ہے۔

اس مختصر مضمون میں دلائل پر گفتگو نہیں کی جاسکتی، صرف ایک حدیث قدسی پیش ہے:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی اُ ن چیزوں سے جو مجھے پسند ہیں، میرا قرب زیادہ حاصل کرسکتا ہے، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تومیں اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاوٴں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الرقاق ۔ باب التواضع)

ایسے بہت سے امور ہیں جہاں تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہے اور ہم اُن کو من وعن تسلیم کرلیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں امتِ مسلمہ کے ہر مسلک کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض ایسے کام یعنی کرامات اس کے برگزیدہ بندوں کے ذریعہ رونما ہوتی ہیں جنھیں انسانی عقل بہ ظاہر قبول نہیں کرتی؛ تاہم عقیدہ کی بنیا د پر ان کا یقین کیا جاتاہے۔

اگر تاریخ کی کتابوں میں اللہ کے کچھ مخصوص نیک بندوں کے حوالے سے خرق عادت کوئی واقعہ منسوب ہے تو کوئی وجہ ایسی نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے واقع ہونے والی اُس کرامت کے انکار کو اپنے ایمان کی بنیاد بنالیں۔ اب اگر کوئی شخص کسی برگزیدہ عالم دین سے ظاہر ہونے والے کسی خرق عادت عمل کو کرامت تسلیم کرتا ہے تو ایسے شخص کو قرآن وحدیث کی روشنی میں کس بنیاد پر گمراہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگر کوئی اپنی بدعقلی میں ایسے شخص پر گمراہی کی تہمت لگاتا ہے تو یہ قرآن وسنت کی خلاف ورزی اور اس سے انحراف ہے۔

ابتداء اسلام سے ہی بے شمار علماء کرام نے اولیاء کرام کی کرامات کو قلمبند کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کی شخصیت کو عالم اسلام میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی مشہور کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان) میں اولیاء کرام کے ذریعہ رونما ہونے والی ایسی کرامات اور واقعات کا ذکر کیا ہے جنہیں بظاہر عقل تسلیم نہیں کرتی ہے۔ برکت کے طور پر صرف ایک واقعہ ذکر کیا جارہا ہے،مزید تفصیل کے لیے متعلقہ کتاب کی طرف رجوع کیاجاسکتا ہے۔

یمن کے رہنے والے مشہور تابعی حضرت عبد اللہ بن ثوب “ابو مسلم الخولانی” کو نبوت کا دعوی کرنے والے اسود عنسی نے بلایا اور کہا: کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انھوں نے کہا کہ میں تیری بات نہیں سن رہا۔ اس نے کہا: تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ اللہ کے رسول ہیں!چنانچہ آگ دہکاکر انھیں اس میں ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ جلتی ہوئی آگ میں اطمینان سے نماز کی ادائیگی کررہے ہیں، اور وہ آگ اُن کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کی جگہ بن گئی۔

بے شک شریعت اسلامیہ کے اصل اصول ومآخذ قرآن وحدیث اور قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماعِ امت اور قیاس ہی ہیں۔ بزرگوں کے واقعات سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے،البتہ ان واقعات سے بصیرت وعبرت ضرور حاصل ہوتی ہے۔ اس استفادہ کے پیش نظر ابتدا سے ہی بزرگوں کی کرامات اور اُن کے واقعات تحریر کیے جاتے رہے ہیں، لیکن کتابوں میں مذکور بعض کرامات اور واقعات کی بنیاد پر اہل سنت والجماعت کے کسی مکتب فکر یاعالم دین (خواہ وہ کسی بھی مسلک کا ہو) کی تضحیک کرنا یا تکفیر کرنا یا اس کو برا بھلا کہنا قطعاً دین نہیں ہے، بلکہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث ومباحثہ سے ایسا یقین ہوتا ہے کہ بعض حضرات اصلاح کے نام پر ملتِ اسلامیہ میں تخریب اور فساد برپا کرنے پر مصر ہیں اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ ”اصلاح مذہبیت“ کا فریب دے کر اپنے حلقے کو وسیع کریں۔ یہ بھی دیکھا جارہاہے کہ اس طرح کے لوگ کسی متقی عالم دین یا کسی مکتب فکر کی دینی واصلاحی خدمات کو ذکر کرنے کے بجائے اُن پر کیچڑ اچھالنا اپنی انا کی تسکین اور اپنے تخریبی مشن کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس بات سے ہم سب ہی واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ابنیاء کرام ہی معصومیت کے درجے پر فائز ہیں۔ بقیہ تمام لوگ غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ ہمارے علماء دین بھی بشر ہیں اور ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور کوتاہی بھی، لیکن اپنے ذاتی مفادت حاصل کرنے کے لیے علماء دین یا کسی مکتبہٴ فکر کی تضحیک یا سب وشتم ایک شیطانی عمل ہے۔ اختلاف رائے بالکل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اپنے بارے میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ علماء دین کی اِس تذلیل وتضحیک سے کس اسلامی مسلک کی یا کس سیاسی جماعت کی خدمت مقصود ہے؟

انسان کی عقل چونکہ محدود ہے، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رونما ہونے والے معجزات وکرامات کا مکمل طور پر احاطہ کرلے، لہٰذا ایک سلیم الطبع دینی سمجھ کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی شناخت کرنی چاہیے، جن کا واحد مشن دین اسلام کی تضحیک وتذلیل اور ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرکے اسلام دشمن طاقتوں کی خدمت کرنا ہے۔

اللہ کے ولی کی پہچان یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا متبع ہوتا ہے، اپنی خواہشات کو رسول اللہ ﷺ کے احکام پر قربان کردیتا ہے،جیسا کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے! لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ (شرح السنہ)تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہش کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کردے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں