زکوٰۃ میں چاندی کےنصاب کا اعتبار کیوں؟

سوال: زکوۃ میں سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے، لیکن اگر کسی کے پاس ہر ایک نصاب الگ الگ مکمل نہ ہو بلکہ سونا، چاندی مال تجارت اور نقدی میں سے سب کا یا بعض کا مجموعہ ہو تو چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔اس بات کی تحقیق مطلوب ہے کہ چاندی کے نصاب کا ہی اعتبار کیوں کیا جاتا ہے ،سونے کے نصاب کا اعتبار کیوں نہیں؟

الجواب بعون الوھاب

چاندی کے نصاب کا ہی اعتبار کیا جائے گا اس کی کی دو وجوہات ہیں:

ایک وجہ یہ ہے کہ زکوة فقراء کے نفع کے لیے ہے اور چاندی کے نصاب سے حساب کرنے کی صورت میں فقرا کو زکوٰۃ زیادہ ملتی ہے۔جبکہ سونے کے حساب سے زکوۃ کم ملتی ہے۔ کیونکہ سونے کے نصاب سے کم آدمیوں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے اور زکوٰۃ کے معاملہ میں فقراء کا زیادہ خیال کیا گیا ہے تاکہ معاشرہ سے غربت ختم ہو جائے۔ چنانچہ اصول ہے کہ زکوٰہ میں انفع الفقراء پر ہی فتویٰ دیا جائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں احتیاط بھی زیادہ ہے،کیونکہ اموال زکوٰۃ کو ملا کر چاندی کے حساب سے نصاب جلد اور کم تعداد میں پورا ہو جاتا ہے اور زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے ،بنسبت سونے کے نصاب کے، کہ اس میں اموال کی تعداد اور لاگت سونے کے نصاب کو پہنچنے میں زیادہ اموال کی ضرورت ہوگی تو اصول یہ ہے کہ عبادات میں احوط کو ترجیح دی جاتی ہے اور احتیاط چاندی کے نصاب کا اعتبار کرنے میں ہی ہے۔

ھدایہ میں اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے مروی ہے :

“سامان کی قیمت کا اندازہ ان دونوں نقدوں میں سے اس کے ساتھ کرے جس میں فقراء اور مساکین کا نفع ہو”

مثلا:تجارت کا ایک سامان ہے جو دو سو درہم کا تو ہوجاتا ہے مگر بیس مثقال کا نہیں ہوتا تو اس کو دراہم کے ساتھ اندازہ کرے اور اگر چاندی مہنگی ہو اور سونا سستا ہو تو سونے کے ساتھ اندازہ کرے۔

فی زمانہ سونا مہنگا ہے اور چاندی سستی تو سامان کی قیمت کا اندازہ چاندی سے لگایا جائے گا۔

———————————

1- و کذا يضم بعض اموال التجارة الي البعض ثم ما ذا تقوم ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي أنه يقوم بأوفى القيمتين من الدرهم والدنانير وكذا روي عن أبي حنيفة رحمه الله فى االامالى انه يقومها بأنفع النقدين للفقراء وجه قول أبي حنيفة رحمه اللہ ان الدراهم والدنانير و ان كان فى الثمينة والتقويم بهما سواء لكن رجحنا احدهما بمرجح وهو النظر للفقراء والاخذ بالاحتياط (بدائع :٢١/٢)

2/یقومھا بما ھو انفع للمساکین احتیاطا لحق الفقراء و هذا رواية عن ابي حنيفة و في الاصل خيره لان الثمنين فی تقدیر قیم الاشیاء بھما سواء و تفسیر الانفع ان یقومھا بما يبلغ نصابا

(اشرف الهداية :كتاب الزكوة:/الجزء الاول:صفحه نمبر:91)

2/و تضم قيمة العروض إلى الثمنين ،و الذهب إلى الفضة قيمة حتى لو ملك مائة درهم و خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكوة عنده

(في الهندية:ج/1:ص:179)

3/ولو بلغ باحدهما نصابا دون الآخر ما يبلغ به ولو بلغ باحدهما نصابا و خمسا و بالآخر اقل قومه بالانفع للفقير

(الدر المختار :ج/2,ص:299)

والله اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں