کرسمس،چند شبہات کا ازالہ:
کرسمس کی مبارک باد دینے کے حوالے سے کل، فیس بک کی ایک “معروف شخصیت” کے خیالات پڑھنے کا اتفاق ہوا-
ان کی راۓ ہے کہ کرسمس کی مبارک باد دینا جائز ہے، کیونکہ مذہبی تہواروں کی مبارکباد دینا آج کی دنیا کی ایک سماجی روایت بن چکی ہے-
ھندو عیسائی بھی مسلمانوں کو عید مبارک کہتے ہیں ایساکرنے سے وہ مذہب سے خارج نہیں ہوتے تو مسلمان کرسمس کی مبارکباد دیدے تو کون سی بری بات ہے؟”
ہم اس حوالے سے اپنا موقف پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں :
کرسمس سراسر شرک پر مبنی تہوار ہے*
کرسمس کا مفہوم ہے (معاذاللہ!) “اللہ کے بیٹے مسیح کی پیدائش کی خوشی اور اس خوشی کی تقریبات-” حالانکہ قرآن پاک کا صاف اعلان ہے کہ اللہ* تعالی کی ذات اولاد سے پاک ہے- (لم یلد ولم یولد) ثابت ہوا کہ کرسمس ایک شرکیہ عقیدے پر مبنی تہوار ہے- اب ایسے شرکیہ تہوار کا موازنہپاکیزہاسلامی عیدوں سے کرنا، ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے-
نبی کریم علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی رواداری کرنے والا اور سماجی رسوم وروایات کو سمجھنے والا نہیں ہوسکتا-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سالہ مکی دور میں جب اسلام ،موجودہ دور سے بھی زیادہ کسمپرسی اور کمزوری کی حالت میں تھاکبھی ملکی و قومی اتحاد کی خاطر شرکیہ تہواروں میں شرکت نہیں کی،
مشرکوں نے پیش کش کی کہ ایک دن ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیاکریں گے، بدلے میں ایک دن آپ ہمارے بت خانے میں آکر بتوں کی عبادت کرلیا کریں! لیکن اس نازک اور صبرآزما دور میں بھی عقیدے کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا، بلکہ (لکم دینکم ولی دین) کا اعلان فرمایاگیااور قرآن نےواضح کردیا کہ (لئن اشرکت لیحبطن عملک) معلوم ہوا کہ شرک اور مظاہر شرک کی تائید وترویج ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہوسکتا،
حالانکہ اسلام ضرورت اور مجبوری کے احوال میں تخفیف کا قائل ہے لیکن شرک اور مظاہرشرک کے حوالے سے ذرہ برابر لچک نہیں دیتا- تاکہ شرک بالکل ہی نابود ہوجاۓ!
پھر شرکیہ تہواروں کی مبارک باد دینا چاروں فقہی مسالک میں حرام ہے
(suffahpkتفصیل کے لیے دیکھیے ہمارا فیس بک پیج دیکھئے )
اور جب کسی مسئلہ پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہوتو اس کے مقابلے میں چوں چراں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی-
والسلام