ذاتی استعمال میں جو گھر تھا اسے بیچ کر جو رقم ملی اس پر زکوۃ کا حکم/ شوہر کی نمازوں کا فدیہ دینا/ اولاد کو ہدیہ دینے میں برابری

عنوان: کتاب الصلوۃ/کتاب الزکوۃ/کتاب الھبہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ!

سوال
میرےشوہر کا انتقال ہو گیا ہے میں اب اپنے بیٹوں کےساتھ رہ رہی ہوں۔ میرے نام پر ایک مکان تھا جس کو بیچ کر میں نے بڑے اور چھوٹے بیٹے کوان کا حصہ دے دیا ہے۔ درمیان والے بیٹے کو میں ہاتھ میں پیسے نہیں دے رہی البتہ اس کے حصے کے پیسوں سے میرا اس کو گھر لے کے دینے کا ارادہ ہے کیونکہ اس کی چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ابھی گھر کو بکے ایک سال نہیں ہوا مگر میرا یہ بیٹا مجھ سے جھگڑ رہا ہے کہ میں نے غلط کیا۔ میں نے گھر بیچنے کے بعد کچھ پیسے اپنی ضرورت کو بھی رکھے ہیں کیا میرا یہ ہبہ کرنا غلط ہے۔ اور کیا مجھے ان پیسوں پر زکوۃ دینا ہوگی ۔کیونکہ میرا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ اور ہم ابھی گھر خریدنے کے لیے تلاش کر رہے ہیں۔میں نے یہاں ایک مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ انویسمنٹ پراپرٹی نہیں ہے ۔
مزید یہ کہ کیا میں اپنے مرحوم شوہر کی قضا نمازوں کا فدیہ پاکستان جاکر کسی ضرورت مند کو خود دے سکتی ہوں۔ ابھی میرے حالات مجھے اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ میں امریکہ سے پاکستان کا سفر کروں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

1.واضح رہے کہ ز ندگی میں والدین کی جائیداد میں بچوں کا کوئی حق نہیں لہذا کسی بچے کا والدین سے جائیداد کا ان کی زندگی میں تقاضا کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا جائز نہیں گناہ ہے اس سےاجتناب لازم ہے۔نیز صورت مسؤلہ میں اگر یہ گھر آپ کاتھا آپ کے مرحوم شوہر کا نہیں تھا تو اس صورت میں آپ کا گھر کو بیچنے اور اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کی شرعا اجازت ہے تاہم شریعت نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ کہلاتی ہے اور یہ میراث کے زمرے میں نہیں آتا اور ہبہ میں تمام بیٹے بیٹیوں میں برابری ضروری ہے۔البتہ کسی ایک اولاد کو دین داری یا ضرورت مند ہونے کی حیثیت سے زائد دے دیا جائے تو اس کی گنجائش ہے ،البتہ بغیر کسی ضرورت کے دوسرے کو زیادہ دے دیا جائے اور اس سے دوسروں کو محروم کرنا مقصود ہوتو پھر یہ مکروہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں خود بھی اپنی ضرورت کے لیے جتناحصہ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں۔
2.گھر کو بیچنے سے آپ کو جو رقم ملی ہے اگر ابھی اس پر سال نہیں گزرا تو اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں البتہ اگر آپ پہلے سے صاحب نصاب تھیں تو اس رقم پر نیا سال گزرنا ضروری نہیں بلکہ جب آپ کی زکوۃ کا سال پورا ہورہا ہو تو اس رقم میں سے جتنی رقم آپ کے پاس بچی ہوئی ہو اس کی دیگر مال زکوۃ کے ساتھ زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔
3.اگر آپ کے شوہر نے انتقال سے قبل قضا نمازوں کے فدیہ کے متعلق وصیت کی تھی تو مرحوم کے ترکہ میں سے ایک تہائی مال میں سے اس کا ادا کرنا لازم ہوگا۔ البتہ اگرانھوں نے وصیت نہیں کی تھی تو آپ پر اس کا ادا کرنا لازم نہیں ،لیکن آپ کے ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت کے ساتھ احسان ہوگا۔
——————————————–
حوالہ جات :

1.سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ يَقُولُ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً، فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلاَدِكُمْ»، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ.
(صحیح بخاری: 2587)
حضرت نعمان بن بشیر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ  ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ  ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ’’ آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔‘‘ حضرت نعمان  ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔
—————————————–
1.“وأما إذا أراد الرجل أن یقسم أملاکہ فیما بین أولادہ فی حیاتہ لئلا یقع بینہم نزاع بعد موتہ، فإنہ و إن کان ہبۃ فی الاصطلاح الفقہی ولکنہ فی الحقیقۃ، والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت وحینئذ ینبغی أن یکون سبیلہ سبیل المیراث۔”
(تکملۃ فتح الملہم : جلد 2،صفحہ 75)

2.”(قوله فروع) ‌يكره ‌تفضيل ‌بعض ‌الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين.”
(البحر الرائق: جلد 7،صفحہ 288)

3.وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
(الفتاوی شامیہ: جلد 5، صفحہ 696)

4.قلت: ثبوت الفدية في الصوم يحتمل أن يكون معللا بالعجز وأن لا يكون، فباعتبار تعليله به يصح قياس الصلاة عليه لوجود العلة فيهما، وباعتبار عدمه لا يصح، فلما حصل الشك في العلة قلنا بوجوب الفدية في الصلاة احتياطا؛ لأنها إن لم تجزه تكون حسنة ماحية لسيئة، فالقول بالوجوب أحوط؛ ولذا قال محمد تجزئه إن شاء الله تعالى، 
(الفتاوی شامیہ: جلد 1، صفحہ355)

5.إذا أمسکہ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال علیہ الحول وقد بقي معہ منہ النصاب فإنہ یزکی ذلک الباقی وإن کان قصدہ الإنفاق منہ أیضاً فی المستقبل لعدم استحقاقہ صرفہ إلی حوائجہا الأصلیة وقت حولان الحول
(الفتاوی شامیہ : جلد 3،صفحہ 179)
——————————————-
1.جس کےپاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھےسات تولہ سونا یا ان کی قیمت کے بقدر نقد رقم ہو اور ایک سال تک باقی رہے تو سال گزرنے پر اس کی زکوۃ دینا واجب ہے۔
(تسہیل بھشتی زیورات: جلد 1،صفحہ 393)

2.مکان کے لیے جمع رقم پر زکوۃ:(سوال4442)
جواب: خرچ کرنے سے پہلے جب اس جمع شدہ روپیہ پر سال بھر گزر گیا تو اس پر زکوۃفرض ہوگی۔زکوۃ ادا کرکے پھر مکان بنائے.
(فتاوی محمودیہ: جلد 9،صفحہ339)

3.وارثوں کو ہبہ کرنا : (سوال 11143)
جواب : والد اپنی صحت تندرستی کی حالت میں اپنی اولاد لڑکےاور لڑکی کو جو چیز دے یعنی ہبہ کردے اور اپنا قبضہ اٹھا کر اس کا قبضہ کرادے وہ چیز اس کی ملک ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔وہ چیز ترکہ نہیں بنے گی اور دوسروں کو تقسیم کے مطالبہ کا حق نہیں ہوگا۔
(فتاوی محمودیہ: جلد 24، صفحہ 62)

4.وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں، وہ ان کی طرف سے عطیہ ہے، اس کو وراثت سمجھنا صحیح نہیں، اور وارثوں میں کسی وارث کو محروم کرنے کی وصیت کرنا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر وارث سب عاقل و بالغ ہوں تو اپنی خوشی سے ساری وراثت ایک وارث کو دے سکتے ہیں، والدین اپنی اولاد کو جو عطیہ دیں اس میں حتی الوسع برابری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد6 صفحہ 417-418)

5.فدیہ نماز کی تفصیل: (سوال 3476)
جواب : اگر اس نے وصیت نہیں کی تو ورثہ کے ذمے اس کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں تاہم اگر بالغ ورثہ اپنے مال سے خواہ وہ مال ان کو اسی میت سے بصورت ترکہ ملا ہو تو فدیہ ادا کرنا چاہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔فدیہ دیں۔
(فتاوی محمودیہ:جلد 7،صفحہ389)
———————————————–
واللہ اعلم بالصواب
27اکتوبر2022
2ربیع الثانی1444

اپنا تبصرہ بھیجیں