آمدنی حرام ہو اس سے ہدیہ یا مالی معاملہ کرنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کیافرماتےہیں مفتیا ن کرام اس مسئلے کےبارے میں جس شخص کی آمدنی ناجائز ذرائع  مثلا عقود فاسد  یا باطلہ  سےحاصل ہوئی ہو، توایسے شخص سے ہدیہ لینا، یا اس کے ساتھ کوئی جائز معاملہ کرکے اس کاعوض لینا شرعاً درست ہے یانہیں ؟ بینواتوجروا ۔وجزاکم اللہ خیرا۔

عبداللہ

کراچی  

الجواب حامداومصلیاً

الحمدلله رب العالمین والصلاۃ والسلام علی أشرف  المرسلین سیدنامولانا  محمد وعلی آله وأصحابه أجمعین  وعلی من تبعھم  بإحسان إلی  یوم الدین

أمابعد،

جس شخص کی آمدنی ناجائز ہو ،اس کی دوصورتیں ہیں :

ایک یہ کہ وہ مدنی  اس نے غصب  یاعقد باطل کےذریعہ  حاصل کی ہو، جیسے ربا القرض ،رشوت وغیرہ  ، اور دوسرے  یہ کہ عقد فاسد کےذریعہ حاصل کی، جیسے  بیع قبل القبض ، یابیع  غرر وغیرہ۔

پھراس شخص سے اس کی آمدنی  حاصل کرنے کی دوصورتیں  ہیں : ایک یہ کہ وہ اپنی آمدنی میں سے کسی کو کچھ ہدیہ  کرے یا ہبہ  کrے اور شی ء موہوب بعینہ  وہ ہو جو ناجائز ذریعہ  سےحاصل ہوئی ہے ، چاہے عروض  ہوں یا نقود، توایسا ہدیہ قبول کرنا دونوں صورتوں میں ناجائز ہے، چاہے  آمدنی بیع  باطل کی ہویا بیع فاسد کی ہو، البتہ اگر ناجائز آمدنی نقود  کی شکل میں ہو اور کاسب حرام نے  اس سے کوئی چیز خریدلی ہوتواس میں فقہاء کا کلام ہےا ور امام کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کےمطابق  صرف اس صورت میں خریدی ہوئی چیز کا لینا ہدیۃً  ناجائز ہے جب اس نے ناجائز نقود کی طرف اشارہ کرکے  وہی نقود ; قیمت کےطور پر اداکیے ہوں (جوعام  طورپرنہیں ہوتا)،  باقی تمام صورتیں جائزہیں ۔

لیکن اگر ناجائز آمدنی کسی عقد صحیح کےذریعہ حاصل کی جارہی ہو مثلاً کاسب  حرام کوکوئی چیز فروخت  کرکے قیمت  وصول کرنا، یاکوئی چیز کرایہ  پردے کر  کرایہ وصول کرنا ،تواس میں یہ تفصیل  ہے  کہ ناجائز نقد آمدنی اگرغصب  یاعقد  باطل کے ذریعہ  حاصل ہوئی ہے تو وہ قیمت  کے طور پر وصول کرناجائز نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نقود کاسب حرام کی ملکیت  ہی میں نہیں آئے، اور اگرچہ جب اس آمدنی  کےعوض کوئی چیز بیچی جائے توعقد کا تعلق نقود مطلقہ سے ہوگا،خاص ان ناجائز نقود سے نہیں ہوگا،لیکن یہ شبہ ضرور ہے کہ عقد انہی ناجائز نقود سےمتعلق ہے، اور شبہ  عقد کے  ناجائز ہونے  کے لیے کافی ہے۔ البتہ  اگر وہ ناجائز نقودکسی عقد فاسد سے حاصل  ہوئے ہوں تونقود  کےقبضے  کے بعد وہ کاسب حرام کی ملک میں آجاتے  ہیں، اگرچہ  وہ ملک خبیث ہوتی  ہے، تویہاں دوشبہے  پیدا ہوگئے  : ایک یہ کہ اس کی ملک ہے یانہیں ؟ اور دوسرے  یہ کہ عقد اسی سےمتعلق ہوا یا نہیں ؟ لہذا یاشبھة الشبھة ہوگیا، جومعتبر نہیں ہے۔اس لیے عقد  جائزکے ساتھ کاسب حرام کی آمدنی  حاصل کرنے کی  گنجائش ہے ۔

اسی طرح اگر ناجائز آمدنی غصب  یاعقد  باطل کی ہو اور کاسب حرام نے اسے اپنے اموال کےساتھ مخلوط   کردی ہوتو اس میں جتنی مقدار  کے بارے میں یہ ظن غالب  ہوکہ مال مخلوط  میں اتنی مقدار  حلال ہے اس کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہوگا، نیز چونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےنزدیک  اس خلط   کےنتیجے میں  غاصب  کوملک خبیث  حاصل ہوجاتی ہے،  تواس کا حکم بھی  بظاہر  بیع فاسد کے ثمن کا ہونا چاہیے ، کیونکہ یہاں بھی دوشبہے  جمع ہوگئے : ایک  یہ کہ اس کی ملک ہے یانہیں؟ اور دوسرے یہ کہ عقد  صحیح اس سی متعلق ہوا یانہیں؟ (تفصیل کےلیےبندے  کی کتاب”فقہ البیوع“المبحث  العاشر : أحکام المال الحرام  ملاحظہ ہو)۔

واللہ سبحانه وتعالیٰ اعلم

بندہ محمد تقی عثمانی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں: 

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/875666539469259/

اپنا تبصرہ بھیجیں