اہل تشیع سے نکاح کی متفرق صورتیں

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک برادری ہے جو کہ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی غمی اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں نیز آپس میں سب کی رشتہ داریاں بھی ہیں یعنی ایک دوسرے کو رشتے بھی دے رکھے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ اس برادری میں کچھ اہل سنت کے لوگ ہیں اور دیگر اہل تشیع ہیں  لہذا آپ سےدرج ذیل  امور کا حل مطلوب ہے

1۔اہل تشیع کے لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے ہے یا نہیں ؟اگر  بعض صورتوں میں ہوسکتا  ہے اور بعض میں نہیں تو ان کی وضاحت فرما دیجئے

2۔اہل تشیع کی لڑکی سے سنی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں ؟اس کی بھی مکمل وضاحت فرما دیجئے

3۔ برادری کے بہت سے اہل سنت کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہل تشیع کی لڑکی کا اگر اہل سنت کے لڑکے سے عقد ہوجائے تو کوئی حرج نہیں  کیونکہ اس طرح لڑکی بھی سنی ہوجائیگی ۔ان کی یہ بات درست ہے یا  غلط ؟اگر صحیح ہے تو لڑکی کو عقد نکاح سے پہلے سنی کر دینا ضروری ہے یا  اس کے اہل تشیع ہوتے ہوئے ہی نکاح منعقد ہوجائے گا  ؟ مکمل وضاحت فرما دیجئے

4۔ایک شیعہ لڑکی سنی لڑکے سے کہتی ہے کہ نکاح کے بعد میں سنی ہوجاؤں گی کیونکہ اگر نکاح سے قبل ہی میں نے سنی ہونے کا اقرار کر لیا تو میرے والدین شادی سے انکار کر دیں گے ا ب کیا اس طرح  ہونے والا نکاح دین اسلام میں معتبر ہوگا ؟وضاحت فرما دیجئے یا پھر اس کا جو صحیح حل ہو وہ بیان فرما  دیجئے

واضح رہے کہ جن اہل تشیع کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ اثنا عشری ہیں جن میں تین باتیں پر زور طریقے سے پائی جاتی ہیں

  1. حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا ومختار کل مانتے ہیں ۔
  2. اپنے بارہ اماموں کو حضور اکرمﷺ کے سوا باقی  تمام انبیاء سے افضل مانتے ہیں ۔
  3. دو چار صحابہ کے سوا باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین پر بشمول خلفائے ثلاثۃ ،حضرت امیر معاویہ ،حضرت عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہم پر تبرا کرتے ہیں

تمام امور کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں مفصل ذکر فرمائیں

جزاکم اللہ خیراً

محمد عثمان

الجواب حامدا ومصلیا

سوال میں ذکر کردہ  عقائد سےمتعلق  تفصیل اگر درست ہے تو  واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر تبرا کرنا باتفاق علما گمراہی  وضلالت  ہے لیکن  اگر حضرت عائشؓہ  کے افک کا قائل ہے یا حضرت علی ؓ کی الوہیت کا قائل ہے یا حضرت جبریل ؑ کی طرف وحی میں غلطی ہونے کا معتقد ہے تو محققین علما کے نزدیک یہ جملہ امور کفر کاسبب ہیں۔اس لیے ایسے عقائد رکھنے والے مرد وعورت کا   سنی مرد وعورت  کا نکاح درست نہیں۔ اس تمھید کے بعد سوال  میں ذکر کی گئی شقوں کا جواب ملاحظہ ہو:

  • اہل تشیع خاندان کالڑکا اگر مذکورہ بالا عقائد رکھتا ہے تو اس سے  سنی لڑکی کا  نکاح  منعقد نہیں ہوگا۔

 اہل تشیع خاندان کی لڑکی  اگر مذکورہ بالا عقائد رکھتی ہے تو اس سے  سنی لڑکے کا  نکاح  منعقد نہیں ہوگا۔

لڑکی کے سنی لڑکےکے نکاح میں آجانے سے اس کا عقیدہ تبدیل  نہیں ہوجائے گا ۔لہٰذا اگر ایسی لڑکی  سے سنی لڑکے کا نکاح کرانے کا ارادہ ہے تو پہلے لڑکی کو مسلمان کرایا جائے پھر عقد  نکاح میں لانا درست ہوگا۔کیونکہ بوقت نکاح لڑکا لڑکی دونوں کا سنی ہونا ضروری ہے۔

مذکورہ بالا عقائد  رکھنے والی لڑکی  جب تک اپنے عقائد پر ہے سنی لڑکے سے نکاح نہیں کرسکتی ۔ اور نکاح کے بعد تبدیلی مذہب کا ارادہ نکاح کے انعقاد  کو جائز نہیں کرے گا ۔اس حالت میں کیا جانے والا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

متبادل حل یہ ہے کہ اگربالغہ لڑکی صدق دل سے اسلام لانے پر راضی ہےاسلام کو نکاح کے لیے ڈھال نہیں بنا رہی پھر اگر اسلام لانے  کا  والدین کو علم ہوجانے سے نقصان پہنچنے  کا اندیشہ ہےیا بتانے میں عذر ہے  تو والدین کو آگاہ نہ کرے  دو گواہوں کی موجودگی  میں اسلام قبول کرلے۔اور قاضی کو اس بات سے آگاہ کردے۔ قاضی اس کے  اسلام پر مطمئن ہوجانے  کا یقین رکھتے ہوئے نکاح پڑھا سکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 45)

(قوله: وحرم نكاح الوثنية) وفي شرح الوجيز وكل مذهب يكفر به معتقده. قلت: وشمل ذلك الدروز والنصيرية والتيامنة، فلا تحل مناكحتهم،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 237)

نقل في البزازية عن الخلاصة أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 46)

 أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 237)

لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة – رضي الله تعالى عنها – أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن، ولكن لو تاب تقبل توبته،

فتاوی قاسمیہ میں ہے:  2/ 296

فرقۂ اثنا عشریہ لڑکے کے ساتھ سنی لڑکی کا اور سنی لڑکے کے ساتھ فرقۂ اثنا عشریہ لڑکی کا نکاح صحیح نہیں ہوتا ہے۔ اور اگر نکاح ہوچکا ہے تو اس کو ختم کر دینا اور فسخ کرنا واجب ہے۔ (مستفاد: فتاوی دارالعلوم ۷/ ۴۶۲، ۷/ ۴۶۵)

             فتاوی دار العلوم دیوبندمیں ہے: جلد 7/ 203

رافضی  تبرائی کو بہت سے فقہاء نے کافر لکھا ہے‘ لیکن   محققین  فقہاء کی یہ تحقیق ہے کہ اگر حضرت عائشہ ؓ کے افک کا قائل ہے یا حضرت علی ؓ کی الوہیت کا قائل ہے یا حضرت جبرائیل ‘ کی طرف وحی میں غلطی ہونے کا معتقد  ہے تویہ جملہ ا مور موجب کفر اور ارتداد  باتفاق ہیں پس ایسے رافضی کے ساتھ سنیہ عورت کا نکاح منعقد نہیں ہوتا بدون طلاق کے دوسرا نکاح کرسکتی ہے

             فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:جلد 7/ 203

زید کو اس صورت(زید سنی ہوگیا،والدین نے اس کی شادی شیعہ لڑکی سے کردی زید نے بعد شادی اس کو بھی سنی کرلیا )میں زوجہ کو سنیہ کرلینے کے بعد تجدید نکاح کرلینے کی ضرورت ہے۔

کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نورمحمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۳ذوالقعدہ۱۴۴۱ھ

25جون2020

اپنا تبصرہ بھیجیں