الکوحل پرفیوم کا استعمال

فتویٰ نمبر:777

سوال: الکوحل پرفیوم کے بارے میں کیا فتویٰ ہے ؟

الجواب حامدًا ومصلياً

جن اشیاء(مثلا لوشن،کریم اور پرفیوم) کے بارے میں یقینی طور پر یا گمانِ غالب کی حد تک یہ معلوم ہو کہ اس میں انگور یا کھجور کی کچی یا پکی شراب والا الکحل استعمال ہوا ہےتو اس کا استعمال نا جائز ہے ، اور جس کے بارے میں یقینی طور پر یا گمانِ غالب کی حد تک معلوم ہو کہ اس میں پھولوں،سبزیوں،گنے اوراناج وغیرہ سے بنا ہوا الکحل ہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ نیز تحقیق کی رو سےآج کل پرفیوم وغیرہ میں جو الکحل استعمال کیا جاتا ہے وہ عموماً چونکہ کھجور،انگور ،کشمش یا منقّی سے بنا ہوا نہیں ہوتا بلکہ دوسری مختلف چیزوں مثلاً پھولوں،سبزیوں،گنے اوراناج وغیرہ سے بنا ہوا ہوتا ہے،اس لئے ایسا پرفیوم راجح قول کے مطابق پاک ہے اور استعمال کی گنجائش ہےاور نماز بھی ادا ہوجائے گی۔

اور اگرمذکورہ اشیاءمیں استعمال کیا گیا الکحل انگور، کھجور یا منقی سے تیار کیا گیا ہوتو چونکہ وہ ناپاک ہے اس لیے جس چیزمیں ڈالا جائے گا اسے بھی ناپاک کردیگا،اس لئے مذکورہ اشیاء استعمال کر نے والا جب تک اس حصہ کو دھو کر پاک نہ کر لے جہاں لوشن یا کریم یا پرفیوم لگا ہے اس وقت تک نماز شروع نہ کرے کیونکہ نماز کے صحیح ہونے کے لئے نمازی کا جسم اور کپڑے دونوں پاک ہونا شرط ہے ۔اور جن اشیاء میں انگور، کھجور کشمش یا منقی سے بنایا گیا الکحل استعمال نہیں کیا گیاتوایسی اشیاء لگا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔

فی تکملۃ فتح الملھم (۳/۸۰۶ مکتبہ دار العلوم کراچی)
واما غیر الاشربۃ الاربع،فلیست نجسۃ عند امام ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی، وبھذا یتبین حکم الکحل المسکرۃ (ALCOHALS)التی عمت بھا البلوی الیوم، فانھا تستعمل فی کثیر من الادویۃ والعطور والمرکبات الاخری، فانھا ان اتخذت من العنب او التمر فلا سبیل الی حلتھا او طہارتہا، وان اتخذت من غیرھا فالامر فیھا سھل علی مذھب ابی حنیفۃ رحمہ اللہ، ولا یحرم استعمالھا للتداوی او لاغراض مباحۃ اخری ما لم تبلغ حد الاسکار، لانھا تستعمل مرکبۃ مع المواد الاخری، ولا یحکم بنجاستھا اخذا بقول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ۔
وان معظم الکحل التی تستعمل الیوم فی الادویۃ والعطور وغیرھا لا تتخذ من العنب او التمر، انما تتخذ من الحبوب او القشور او البترول وغیرہ، کما ذکرنا فی باب بیع الخمر من کتاب البیوع، و حینئذ ھناک فسحۃ فی الاخذ بقول ابی حنیفۃ عند عموم البلوی۔
وفی العنایۃ (۴۱/۶۶۳ کتاب الاشربۃ)
قال ( ونبيذ العسل والتين ونبيذ الحنطة والذرة والشعير حلال وإن لم يطبخ ) وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله إذا كان من غير لهو وطرب لقوله عليه الصلاة والسلام { الخمر من هاتين الشجرتين ، وأشار إلى الكرمة والنخلة } خص التحريم بهما والمراد بيان الحكم …
وفی الھدایۃ (۴/۲۹۴ بک لینڈ)
قال والأشربة المحرمة أربعة الخمر وهي عصير العنب إذا غلي واشتد وقذف بالزبد والعصير إذا طبخ حتى يذهب أقل من ثلثيه وهو الطلاء المذكور في الجامع الصغير ونقيع التمر وهو السكر ونقيع الزبيب إذا اشتد وغلى…انھا نجسۃ نجاسۃ غلیظۃ کالبول لثبوتھا بالدلائل القطعیۃ۔
وفی الدر المختار (۶/۸۴۴)
الخمر…حرم قلیلھا وکثیرھا…وھی نجسۃ نجاسۃ مغلظۃ کالبول ویکفر مستحلھا…وحرم الانتفاع بھا….وبعد اسطر…الطلاء…ونجاستہ ای الطلاء علی تفسیر الاول کذا فالہ المصنف کالخمر بہ یفتی.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں