اپنی اولاد کو کیسی تعلیم دی جائے

فتویٰ نمبر:560

سوال:میرے الحمد للہ پانچ بچے ہیں اب یہ بڑے ہوئے اور پڑھائی کے قابل ہوئے اقرباء و متعلقین مجھے ترغیب دے رہے ہیں کہ آپ ان کو اسکول میں داخل کرائیں تاکہ ان کو دنیاوی تعلیم حاصل ہو سکے لیکن میں خود ان کی رائے سے اتفاق نہیں کررہا تین وجوہ کی بناء پر ،اولا ً   کتب ِدرسیہ کے اوپر فوٹو اور تصاویر

ثانیا ً اسکول کا ماحول دینی اعتبار سے خراب مثلا ً بچوں کا آپس میں بہت غلیظات قسم کی گالی گلوچ

ثالثا ً اساتذہ کا خود دین سے دور ہونا جس کا ظاہر ہے کہ بچہ پر اثر پڑسکتا ہے

 لیکن دوسری طرف موجودہ زمانے میں اس تعلیم کی ضرورت بھی کسی حد تک ضرورت سمجھی جاتی ہے ، اب میں اس معاملہ میں شدید قسم کا پریشان ہوں خود کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا آپ مہربانی فرماکر مجھے جلد قرآن وسنت کی روشنی میں صورتِ مسئولہ سے آگا ہ فرمائیں

        جواب:  مذکورہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں سائل پر ضروری ہے کہ اس کے بچے جو کہ سمجھدار ہو چکے انہیں قرآن کریم اور دین کی بنیادی مسائل کی تعلیم دے اس دوران اگر وہ ذہنی  طور پر دینی تعلیم کی طرف راغب ہوں تو پھر انہیں کسی دینی مدرسہ میں تعلیم دلائے  آخرت اور حلال و حرام کا سیکھنا سکھانا دنیوی تعلیم سے بدرجہ بہتر ہے  اس سے فارغ ہونے کے بعد اگر دنیوی تعلیم بھی بقدرِ ضرورت دلا دی جائے تو کوئی حرج نہیں  لیکن بچے کو ابتداء ہی سے دینی ماحول اور دینی تعلیم سے دور رکھنا اور ایسے اسکول و کالج میں تعلیم دلانا جہاں دینیات یا تو بالکل نہ ہوں یا برائے نام ہوں اور بچہ بالغ ہونےکے بعد دینی مسائل وواجبات سے بھی نا واقف ہو یا جہاں بچے کے اخلاق خراب ہوں والد یا سر پرست کے لئے شرعی فریضہ میں کوتاہی کے سبب اس طرح کرنا جائز نہیں

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

کتبہ :محمد  مدنی عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں