اصحاب الاخدود کون تھے  

تحریر : بنت محمد محبوب

ایک عجیب واقعہ

ان “اصحاب الاخدود ” سے کون مراد ہیں ؟

مفسرین نے کئی واقعات نقل کیے ہیں ۔ دنیا میں آگ کی خندقوں کے واقعات مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں پیش آئے ہیں، ابن حاتم ؒ نے ان میں سے تین واقعات کا خصوصیات سے ذکر کیاہے، مقاتل ؒ نے بھی ان تینوں واقعوں کو نقل کیاہے ، 

پہلا واقعہ بحران میں ہوا جو ملک یمن میں واقع ہے ۔ 

دوسرا ملک شام میں 

تیسرا ملک فارس میں 

” صحیح مسلم جامع ترمذی اور مسند احمد وغیرہ” میں جو قصہ مذکور ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں کوئی کافر بادشاہ تھا ۔ا س کے ہاں ایک ساحر ( جادوگر ) رہتا تھا ۔و ہ بادشاہ جس کا اس واقعہ میں ذکر آیا ہے وہ ملک یمن کا بادشاہ تھا۔ا س کا نام ” یوسف ذونواس ابن شرجیل ” تھا جو ( ضمیری بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا ) جب ساحر کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ ایک ہوشیارا ور ہونہار لڑکا مجھے دیاجائے تو میں ا س کو اپنا علم سکھادوں ۔ تاکہ میرے بعد یہ علم مٹ نہ جائے ۔ چنانچہ ایک لڑکا تجویز کیاگیا جو روزانہ ساحر کے پاس جاکرا س کا علم سیکھتا تھا اس لڑکے کا نام ” عبداللہ بن تامر ” ہے ۔

راستہ میں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جو اس وقت کے اعتبار سے دین حق پر تھا۔ لڑکا اس کے پاس جاکر بھی آنے جانے لگاا ور خفیہ طور سے راہب کے ہاتھ مسلمان ہوگیا ۔اللہ نےا س کو ایمان بھی ایسا پختہ عطا فرمایا تھا کہ ایمان کی خاطر لوگوں کی ایڈائیں برداشت کرتا تھا، چونکہ جب جانے کے وقت راستے میں راہب کے پاس بیٹھتا تو یہاں کچھ وقت لگتا اور جب ساحر کے پاس دیر سے پہنچتا تو وہ اسے مارتا تھا،ا ور وہ جب واپسی کے وقت پھر راہب کے پا س بیٹھتا توگھرو الے دیرسے پہنچنے پر مارتے تھے مگرا س نے کسی کی پرواہ کیے بغیر راہب کی صحبت اور مجالست نہ چھوڑی ۔ راہب کے فیض اور محبت سے ولایت وکرامت کے درجہ کو پہنچا ۔ ایک روز لڑاک جارہاتھا ا س نے راستے میں دیکھا کہ کسی بڑے جانور نے راستہ روک رکھا ہے جس کی وجہ سے مخلوق خدا پریشان کھڑی ہے ۔ا س نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ ” اے اللہ ” اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور پتھر سے مارا جائے یہ کہہ کر پتھرسے مارا جس سے اس جانور کا کام تمام ہوگیا ۔ لوگوں میں شور ہوا کہ اس لڑکے کو عجیب علم آتا ہے ۔ کسی اندھے نے سن کر درخواست کی کہ میری آنکھیں اچھی کردو ،لڑکے نے کہا کہ اچھی کرنے والا میں نہیں ” وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ ” ہے ۔ اگر تو اس پر ایمان لائے تو میں دعا کروں۔ امید ہے کہ وہ تجھ کو بینا کردے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا شدہ شدہ یہ خبریں بادشاہ کو پہنچیں اس نے برہم ہوکر لڑکے کو مع راہب اور اندھے کے طلب کرلیا اور کچھ بحث وگفتگو کے بعد راہب اور اندھے کو قتل کردیا اور لڑکے کی بنسبت حکم دیاکہ اونچے پہاڑ پر سے گرادیاجائے ، مگر خدا کی قدرت جو لوگ اس کو لے کر گئے تھے سب پہاڑ سے گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا صحیح سالم چلاآیا ۔

پھر بادشاہ نے دریا میں غرق کرنے کا حکم دیا ۔ وہاں بھی یہی صورت پیش آئی ۔ لڑکا بچ کر نکل آیا اور جو لے کر گئے تھے وہ سب دریا میں ڈوب گئے ۔ آخر کار لڑکے نے بادشاہ سے کہا میں خود اپنے مرنے کی ترکیب بتلا تا ہوں ۔ آپ سب لوگوں کوایک میدان میں جمع کریں۔ 

ا ن کے سامنے مجھ کو سوئی پر لٹکائیں اور یہ لفظ کہہ کر میرے تیر ماریں ” بسم اللہ رب الغلام ” ( اس اللہ کے نام پر جو رب ہے اس لڑکے کا ) چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا اپنے رب کے نام پر قربان ہوگیا۔ یہ عجیب واقعہ دیکھ کر یکلخت لوگوں کی زبان سے ایک نعرہ بلند ہوا کہ ” اٰمنا برب الغلام ” ( ہم سب لڑکے کے رب پر ایمان لائے ) لوگوں نے بادشاہ سے کہا کہ کیجیے جس چیز کی روک تھام کررہے تھے وہ ہی پیش آئی ۔ پہلے تو کوئی اکا دکا مسلمان ہوتا تھا ۔ا ب خلق کثیر نے اسلام قبول کرلیا۔ بادشاہ نے غصہ میں آکر بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور ان کو خوب آگ سے بھرواکر اعلان کیاکہ جو شخص اسلام سے نہ پھرے گا ۔ا س کو ان خندقوں میں جھونک ہوتاتھا۔ا ب خلق کثیر نے اسلام قبول کرلیا۔ بادشاہ نے غصہ میں آکر بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور ان کو خوب آگ سے بھرواکر اعلان کیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھرے گا ،ا س کو ان خندقوں میں جھونک دیاجائے گا ۔ آخر کار لوگ آگ میں ڈالے جارہے تھے۔ لیکن اسلام سے نہ ہٹتے تھے ۔ا یک مسلمان عورت لائی گئی جس کے پاس دودھ پیتا بچہ تھا ، شاید بچہ کی وجہ سے آگ میں گرنے سے گھبرائی ، مگر بچہ نے خدا کے حکم سے آواز دی ” اماہ اصبری فانک علی الحق ” ( اماں جان صبر کر تو حق پر ہے ) 

ایمان لانے والوں کے لیے خندقیں اور آگ :۔ 

یعنی بادشاہ اور اس کے وزیر مشیر خندقوں کے آس پاس بیٹھے ہوئے نہایت سنگدلی سے مسلمانوں کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ بدبختوں کو ذرا رحم نہ آتا تھا۔

” مومنین کا قصور صرف ان کا ایمان لانا تھا “

یعنی ان مسلمانوں کا قصور صرف اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کفر کی ظلمت سے نکل کر ایک زبردست اور ہر طرح کی تعریف کے لائق خدا پر ایمان لائے جس کی بادشاہت سے آسمان وزمین کا کوئی گوشہ باہر نہیں اور جو ہر چیز کے ذرہ ذرہ احوالس ے باخبر ہے جب ایسے خدا کے پرستاروں کو محض اس جرم پر کہ وہ کیوں اسی اکیلے کو پوجتے ہیں ، آگ میں جلایا جائے تو کیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ ایسا ظلم وستم یوں ہی خالی چلاجائےگا۔ اور وہ خداوند قہار کے ظالموں کو سخت ترین سزا دےنہ دے گا ۔

” حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جب اللہ کا غضب آیا تو وہی آگ پھیل پڑی اور بادشاہوں اور امیروں کے سارے گھر پھونک دیے ” 

مگر روایت صحیحہ میں اس کا ذکر نہیں ۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ

اپنا تبصرہ بھیجیں