عصر حاضر میں مشابہت کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۵۱﴾

سوال:-   گذشتہ دور میں بہت سی چیزوں کو مشابہت کی بناء پر ناجائز کہا گیا لیکن اب وہ مشابہت نہیں رہی تو کیا اب بھی ان کو ناجائز کہا جائے گا ؟

جواب :     یہ بات درست ہے کہ شریعت  میں بعض چیزوں کو مشابہت ِ کفار یا مشابہت فساق کی وجہ سے ناجائز قرار دیا گیا ہے اور اصولی طور پر مشابہت کے ختم ہونے  سے حکم میں تبدیلی بھی ہوتی ہے۔تاہم اس کی بہت مختلف صورتیں ہوتی ہیں ،اس لیے   اپنے طور پر یہ اصول کسی مسئلے پر منطبق کرنے کی بجائے علماء سے پوچھ کر عمل کرنا چاہیے۔

         مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ مشابہت کے حوالے سے فرماتے ہیں:

”شعار کی بحث صرف ان امور میں چلے گی جن کے بارے میں صاحب شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ،ورنہ ہر ممنوع شرعی سے احتراز کرنا ضروری ہوگا ،خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو،اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ،اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہوگا ،اگر وہ نہ رکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے ،یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی ،جس طرح کوٹ کا استعمال ابتدا میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی،پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا ،یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کرلیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی،وہ آخر میں باقی نہ رہی ،اور حکم بدل گیا لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطور مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت کی صاحب شرع محمدﷺ نے صراحت کردی ،ان میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جاسکتا۔ (انوار الباری:5\101،فیض الباری: 2\15)

فقط والله تعالیٰ اعلم

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں