عورت کس عمر تک کے بچے کو تعلیم دے سکتی ہے

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں ایک بچہ میرے پاس 2 سال سے آرہا ہے اب وہ دس سال کا ہونے والا ہے میں اس کو کب تک پڑھاسکتی ہوں میرا چہرہ کور ہوتا ہے ماسک کی وجہ سے اور نماز کی طرح دوپٹہ لیا وا ہوتا ہے میں پردے میں ہوکر دس سال سے آگے پڑھاسکتی ہوں ابھی اس بچے کا تیسرا پارہ شروع ہوا ہے قاعدہ بہت دیر سے ختم ہوا ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

عام طور پر بچے تین طرح کے ہوتے ہیں،ہر ایک کا حکم الگ ہے:

1 ۔ وہ نابالغ بچہ جو بالکل نادان اور ناسمجھ ہو تو اس سے عورت کا پردہ کرنا لازم نہیں۔

2۔ وہ نابالغ بچہ جو تھوڑا بہت ہوشیار اور سمجھ دار ہو، لیکن حد شہوت تک نہ پہنچا ہو تو اس سے پردہ کرنا لازم تو نہیں،البتہ احتیاط کرنی چاہیے، احتیاط سے مراد یہ ہے کہ ان کے سامنے بے تکلف نہ آیا جاٸے اور سر وغیرہ کھولنے میں بھی احتیاط کی جاٸے ۔

3۔۔۔۔وہ بچہ جو مراہق ہو یعنی بلوغت کے قریب ہو اگرچہ پندرہ برس کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو اس سے پردہ کرنا لازم ہے؛کیونکہ پردے کا اصل مدار شہوت کی حد تک پہنچنے پر ہے،اگر نابالغ اتنی عمر کا ہوجاٸے کہ جس میں اس کو شہوت ہوتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگا۔حدیث میں تو اُس دور کے حساب سے دس سال کے بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن مراہق ہونے کی حد غذا، موسم اور ماحول کے مختلف ہونے سے مختلف ہوسکتی ہے، بہر حال بچہ جس عمر کا بھی ہو جب اس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ مراہق ہے اور اسے شہوت ہوتی ہے تو پھر اس سے پردہ کرنا لازم ہے۔

مذکورہ تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر آثار سے معلوم جائے کہ بچہ مراہق ہے اور اسے شہوت ہوتی ہے تو پھر اسے پڑھانا جائز نہیں،بصورت دیگر پڑھانے کی گنجائش ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دليل

1—(مبدأ سنّ البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنةً، وفي المرأة تسع سنوات، ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنةً. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنةً ولم يبلغ يقال له: “المراهق”، وإذا أكملت المرأة تسعًا ولم تبلغ يقال لها: “المراهقة” إلى أن يبلغا) إن أقل سنّ يمكن أن يحتلم فيها الذكور ويبلغوا هي اثنتا عشرة سنةً، والإناث تسع سنوات، و منتهى السن في الاثنين خمس عشرة سنةً عند الإمامين، وعليه فمتى أتم الذكر الثانية عشرة من عمره يمكن أن تظهر عليه آثار البلوغ المذكورة في المادة الآنفة؛

( دررالحکام شرح مجلة الأحکام 263/2 دارالکتب العلمیة، بیروت)

2.—فتحصل من هذا أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببًا للولد أو المس الذي يكون سببًا لهذا الوطء ولايخفى أن غير المراهق منهما لايتأتى منه الولد”. ( فتاوی شامیہ ,35/3 دارالفکر)

3….والغلام الذي بلغ حد الشهوة كالبالغ كذا في الغاثية.

(الفتاوى الهندية، فصل في النظر والمس،330/5):

4…أيت” أو الطفل الذين لم يظهروا على عورت النساء”

اس سے مراد وہ نا بالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات اور صفات و حرکات و سکنات سے بالکل بے خبر ہوں۔اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی بلوغت کے قریب ہے اس سے پردہ واجب ہے۔

(معارف القرأن،مفتي محمد شفيع رحمه الله405/6).

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

12ربیع الثانی 1443ہ

18 نومبر2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں