عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق

السلام عليكم! حنفی مسلک کی عورتوں کے لیے تو یہ سب درست ہے کہ وہ سمٹ کر نماز ادا کریں گی مگر مسلک شافعیہ و مالکیہ کی خواتین تو اپنے امام کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ایسے ہی مردوں کی طرح نماز پڑھیں گی، یا ان کے لیے بھی یہی حکم ہے؟؟
اور غیر مقلدین خواتین جو صلوا کما رأیتمونی پر عمل کرتی ہیں اور یہاں مذکورہ احادیث کو غیر صحیح کہتی ہیں، کیا ان کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں؟
آجکل یہ فتنہ بہت عام ہو گیا ہے اس لیے عام خواتین کو سمجھانے کے لیے من فضلکم مکمل رہنمائی مطلوب ہے۔

الجواب باسم ملهم الصواب

خواتین کی نماز کا طریقہ مردوں کے طریقہ سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے، اور چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمھم اللہ اس پر متفق ہیں۔ لہذا جس طرح حنفی مسلک کی عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سمٹ کر نماز پڑھیں اسی طرح شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ سمٹ کر نماز پڑھیں۔ اس کی صراحت ان کی کتابوں میں ملتی ہے۔

اور غیر مقلدین خواتین کا حدیث مبارکہ ” صلوا كما رايتموني اصلي“سے مردوں کی طرح نماز پڑھنے پر استدلال کرنا بالکل بھی درست نہیں کیونکہ اس حدیث مبارکہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ عورتیں ہر ہر فعل میں مردوں کی طرح کریں گی جیسا کہ مختلف احادیث مبارکہ میں ہی عورتوں اور مردوں کے نماز کے افعال میں تفریق کی گئی ہے۔

اور جہاں تک ان لوگوں کا یہ کہناہے کہ جو احادیث عورتوں کی نماز کے فرق کے بارے میں پیش کی گئی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں، یہ درست نہیں۔ خود علماء اہلِ حدیث کے اکابر اس حدیث کے ساتھ فتویٰ دیتے رہے ہیں۔
مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے قائل مذاہب اربعہ کے علماء اور شراح حدیث کے علاوہ غیرمقلدین علماء بھی ہیں، چنانچہ غیر مقلد فقیہ ومحدث مولانا عبدالحق ہاشمی نے نصب العہود فی تحقیق مسئلة تجافی المرأة في الرکوع والسجود والقعود (۴۲ تا ۴۵) میں اور مولانا عبدالجبار غزنوی نے فتاوی علمائے اہل حدیث (۳/۱۴۸) میں بھی فرق کیا ہے۔

علاوہ ازیں اگر کسی حدیث کو ایک محدث یا بعض محدثین ضعیف قرار دیں، لیکن دوسرا محدث یا کئی محدثین اس کی تصحیح کریں یا اسے عملاً قبول کرلیں، یا کسی حدیث کو بعد کے محدثین تو ضعیف قرار دیں (مثلاً بعد کے کسی راوی کے ضعف کی وجہ سے) لیکن امامِ مجتہد نے ان محدثین کے زمانے سے پہلے اس حوالے سے احادیث کی پرکھ کرنے کے بعد کسی حدیث کو قبول کرلیا ہو تو محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے سے امامِ مجتہد کا استدلال ضعیف یا ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے ضعیف حدیث پر عمل کہا جاتاہے، بلکہ قرونِ اولیٰ کا کسی حدیث کو عملاً قبول کرنا اس کی تصحیح ہے۔
اور بعض اوقات اس حدیث کے ساتھ دیگر شواہد بھی مل جاتے ہیں جس سے اس میں قوت آجاتی ہے۔
نیز مزید تفصیل کیلئے حدیث اور اھل حدیث دیکھی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔عَن عَبدِ اللّٰهِ بنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ : اِذَا جَلَسَتِ المَرأَةُ لِلصَّلٰوةِ وَضَعَت فَخِذَهَا عَلٰی فَخِذِهَا الاُخرٰی وَ اِذَا سَجَدَت اِلصَقَت بَطنَهَا فِی فَخذَیهَا کَاَستُرِ مَا یَکُونَ لَهَا وَ اِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَنظُرُ اِلَیهَا وَ یَقُولُ یَا مَلَائِکَتِی اُشهِدُ کُم اِنِّی قَد غَفَرتُ لَهَا۔‘
( السنن الکبریٰ للبیهقی ،بَابُ مَا یُستَحَبُّ لِلمَرأَةِ مِن تَرکِ التَّجَافِی فِی الرُّکُوعِ ،رقم:۳۱۹۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔عَن یَزِیدَ بنِ أَبِی حَبِیبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ مَرَّ عَلٰی امرَأَتَینِ فَقَالَ اِذَا سَجَدتُمَا فَضُمَّا بَعضَ اللَحمِ اِلَی الاَرضِ فَاِنَّ المَرأَةَ لَیسَت فِی ذٰلِکَ کَالرَجُلِ
(‘السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَا یُستَحَبُّ لِلمَرأَةِ مِن تَركِ ،رقم:۳۲۰۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔ حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فیعرف بہ أن ہذہ المسئلة کانت ناشیة في عصر الصحابة والتابعین وکأن الصحابة والتابعین قائلین بالتجافي للرجل دون النساء وأما أقوال الفقہاء من الحنفیة والمالکیة والشافعیة والحنابلة وشراح الأحادیث فکثیرة أذکر منہا بقدر الحاجة․ (سنن کبری للبیہقي (۲/۲۲۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4۔فقہِ مالکی:
خلاصہ فقہیہ میں ہے علّامہ محمد عربی قروی﷫فرماتے ہیں:”أمَّا الْمَرْأَة فَتكُونُ مُنْضَمَّةً فِي جَمِيعِ أحْوَالِهَا“۔ترجمہ: نماز کے اندرعورت اپنے تمام احوال میں سمٹ کر رہے گی۔(الخلاصۃ الفقہیۃ علی مذھب السادۃ المالکیۃ:79)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5۔فقہِ شافعی:
کتاب الاُمّ میں حضرت امام شافعی ﷫فرماتے ہیں : ”(قَالَ الشَّافِعِيُّ):وَقَدْ أَدَّبَ اللَّهُ تَعَالَى النِّسَاءَ بِالِاسْتِتَارِ وَأَدَّبَهُنَّ بِذَلِكَ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُحِبُّ لِلْمَرْأَةِ فِي السُّجُودِ أَنْ تَضُمَّ بَعْضَهَا إلَى بَعْضٍ وَتُلْصِقَ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا وَتَسْجُدَ كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا وَهَكَذَا أُحِبُّ لَهَا فِي الرُّكُوعِ وَالْجُلُوسِ وَجَمِيعِ الصَّلَاةِ أَنْ تَكُونَ فِيهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا وَأُحِبُّ أَنْ تَكْفِتَ جِلْبَابَهَا وَتُجَافِيَهُ رَاكِعَةً وَسَاجِدَةً عَلَيْهَا لِئَلَّا تَصِفَهَا ثِيَابُهَا “
(الاُمّ للشافعی:1/138)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6۔فقہ حنبلی : 
المبدع فی شرح المقنع میں ہے:”(وَالْمَرْأَةُ كَالرَّجُلِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ) لِشُمُولِ الْخِطَابِ لَهُمَا لِقَوْلِهِ: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» (إِلَّا أَنَّهَا تَجْمَعُ نَفْسَهَا فِي الرُّكُوعِ، وَالسُّجُودِ) أَيْ: لَا يُسَنُّ لَهَا التَّجَافِي، لِمَا رَوَى زَيْدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى بَعْضٍ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ فِي ” مَرَاسِيلِهِ ” وَلِأَنَّهَا عَوْرَةٌ فَكَانَ الْأَلْيَقُ بِهَا الِانْضِمَامَ، وَذُكِرَ فِي ” الْمُسْتَوْعِبِ ” وَغَيْرِهِ أَنَّهَا تَجْمَعُ نَفْسَهَا فِي جَمِيعِ أَحْوَالِ الصَّلَاةِ لِقَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ(وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَةً) لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ (أَوْ تُسْدِلَ رِجْلَيْهَا فَتَجْعَلَهُمَا فِي جَانِبِ يَمِينِهَا) “
(المبدع فی شرح المقنع:1/124)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔ علماء اہلِ حدیث کے اکابر علماء میں سے مولانا عبد الجبار مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
اسی پر تعامل اہل سنت و مذاہب اربعہ وغیرہ چلا آیا ہے۔ غرض یہ کہ عورتوں کا انضمام اور انخفاض احادیث اور تعامل جمہور اہلِ علم از مذاہب اربعہ وغیرہ سے ثابت ہے اور اس کا مُنکر کتب احادیث اور تعامل اہلِ علم سے بے خبر ہے۔ واﷲ اعلم

(عبد الجبار غزنوی) (فتاویٰ غزنویہ،ص:۲۷۔۲۸۔ فتاویٰ علمائے اہلِ حدیث ج:۳،ص:۱۴۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والله تعالى أعلم بالصواب
15 جمادى الثاني 1445ھ
28 دسمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں