ایک طلاق کا حکم

سوال:ہم آپس میں خوشحال زندگی گزار رہے تھے،سسرال سے اختلاف تھا۔ میری اور ساس کی لڑائی ہورہی تھی، میں بھی زبان درازی کر رہی تھی ،جبکہ شوہر خاموش کھڑے تھے۔ میری ساس نے کہا کہ اپنی بیوی کو ایک تھپڑ لگاؤ۔میرے شوہر نے غصہ میں کہا کہ تم یہ چاہتی ہو کہ میں اسے چھوڑ دوں تو میں اسے ایک طلاق دیتا ہوں۔ میں نے کچھ الفاظ سنے کچھ نہ سنے، لیکن دیور وغیرہ نے یہ سنا کہ میرے شوہر نے کہا کہ میں اپنے ہوش و ہواس میں اس کو طلاق دی۔یہ جملہ ایک دفعہ کہا۔اب میرے لیے کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں۔

الجواب باسم ملھم الصواب

شوہر کے جملے ” میں اسے ایک طلاق دیتا ہوں“ سے آپ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے اس کے علاوہ کبھی کوئی طلاق نہیں دی تو اب وہ عدت کے اندر یعنی تین ماہوریاں مکمل ہونے سے پہلے رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت کے دوران رجوع نہ ہوسکا تو اس کے بعد باہمی رضامندی سے دو مرد گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم آئندہ کیلئے شوہر کو صرف دوطلاقوں کا حق رہ گیا ہے، اس لیے انتہائی احتیاط لازم ہے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدت میں زبان سے کہہ دے کہ ”میں نے رجوع کر لیا ہے“ تو رجوع ہوجائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس پر گواہ بھی بنالے اور اگر زبان سے تو کچھ نہ کہے، مگر بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لے تب بھی رجوع ہوجائے گا۔
________
دلائل
1۔عن عبداللہ وعن اناس من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فذکر التفسیر__ الی قوله__ الطلاق مرتان،قال: ھو المیقات الذی یکون علیھا فیه الرجعة، فاذا طلق امراته واحدة او ثنتین، فاما ان یمسک ویراجع بمعروف واما یسکت عنھا حتی تنقضی عدتھا،فتکون احق بنفسھا۔

(سنن کبری للبیھقی:کتاب الرجعة، دار الفکر بیروت،282/11،رقم: 15539)

2۔ ان علی ابن طالب قال: اذا طلق الرجل امراته فھو احق برجعتھا، حتی تغتسل من الحیضة الثالثة فی الواحدة والثنتین۔

(سنن الکبری للبیھقی،باب من قال الاقراء الحیض، دارالفکر بیروت،377/1،رقم:15799)

3۔’’عن عمران بن حصین انه سئل عن الرجل یطلق امراته ثم یقع بها ولم یشهد علٰی طلاقها ولاعلٰی رجعتها؟ فقال: طلقت لغیر سنة وراجعت لغیر سنة اشهد علٰی طلاقها وعلٰی رجعتها‘‘.
(ابوداؤد:رقم:2186)
ترجمہ:حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو (ایک) طلاق دے پھر اس سے (رجوع کے طور پر) صحبت کرلے اور نہ تو اس نے عورت کو طلاق دینے پر گواہ بنایا اور نہ اس سے رجوع کرنے پر گواہ بنایا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے طلاق بھی غیر مسنون (یعنی غیر مستحب) طریقے پر دی اور رجوع بھی غیر مستحب طریقے پر کیا۔ (مستحب طریقہ یہ ہے کہ) عورت کو طلاق دینے پر اور اس سے رجوع کرنے پر گواہ بنا لیا کرو۔

4۔اذا طلق الرجل امراته تطلیقة رجعیة، او تطلیقتین، فله ان یراجعھا فی عدتھا۔
(ھدایة:باب الرجعة اشرفی دیوبند،394/2،ھندیة،زکریا قدیم، 470/1)

5۔والرجعة ان یقول راجعتک(الی قوله)او یطاھا، او یقبلھا،او یلمسھا بشھوة الخ
(ھدایة اشرفی دیوبند:395/2)

6۔فله ان یراجع وان ابت مادامت فی العدة بقوله راجعتک، او راجعت امراتی، او بفعل مایوجب حرمة المصاھرة من وطء، ومس ونحوہ۔

(مجمع الانھر،دارالکتب العلمیة بیروت:82/2)

فقط واللہ اعلم
4/جنوری 2024ء
21 جمادی الثانی 1445ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں