بینک میں آئی ٹی جاب کا حکم

مولانا صاحب میں نیشنل بینک آف پاکستان میں 2008 میں ایک نوجوان بھرتی پراگرام کے تحت ملازم ہوا۔ اس وقت سے اب تک میں بینک کے انتظامی امور والے ڈیپارٹمینٹ میں بطور آئی ٹی افسر کام کررہا ہوں ۔

میرے دائرے درج ذیل ہیں:

1: بینک کے مواصلاتی /رابطہ نظام کی دیکھ بھالی ۔

2: بینک کے اے-ٹی-ایم مشینوں کی دیکھ بھال ۔

3: کمپیوٹر سسٹم کی دیکھ بھال اور مرمت۔

4: اعلیٰ افسران کو آئی –ٹی کے بارے میں مشورے دینا۔

میرا کام بینک کے کمپیوٹر نظام اور رابطہ سسٹم کو دیکھناہے۔ بینک کے اور کسی کام کی نہ تو مجھے سمجھ ہے اور نہ مجھ سے وہ کام لیا جاتا ہے۔میرا صارفین اور کھاتا داروں کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں ۔

میرے ذہن میں اور لوگوں کی باتوں سے کئی سوال اٹھتے ہیں ۔مجھے ان کے بارے میں،ان کے بارے میں مہربانی کر کے دینی اور شرعی حیثیت بتائیں ۔

1: کیا میری نوکری شرعی اعتبار سے جائز ہے؟

2: اگر نہیں ہے تو کیا مجھے اپنے لیے کوئی دوسرا کام دیکھے بغیر اس کو چھوڑ دینا چاہیے؟

3: میرے لیے آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟

4: قربانی میرے ساتھ لوگ کرنے سے کتراتے ہیں ۔اس معاملہ میں کیا کروں۔

MOBILE: 0302 – 5622044/0335 – 064021

EMAIL: sherzada@gmail.com/sherzada@nbp.com.pk

شکریہ 

جزاکم اللہ

شیرزادہ خان 

بٹگرام،ھزارہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامداً و مصلیاً

3،2،1: آپ نے سوال میں اپنی ملازمت کی جو تفصیل ذکر کی ہے اس میں ذکر کردہ کام جائز ہیں اور مذکورہ بینک جو سودی معاملات کر رہا ہے اس میں آپ کا براہ راست تعاون شامل نہیں ہے لہذا آپ کی مذکورہ ملازمت کی گنجائش ہے اور بینک کے مخلوط مال سے اس ملازمت کی تنخواہ لینا بھی شرعاً جائز ہے البتہ آپ سودی بینک کے علاوہ کسی دوسرے ادارے میں ملازمت کر لیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔

4: اگر آپ اپنی اس جائز ملازمت کی تنخواہ سے قربانی میں حصہ لیتے ہیں تو دیگر لوگوں کے لیے آپ کو قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے ۔

احکام القرآن للتھاوی (ج:3،ص:81)

و ھذا کلہ اذا کان سببا قریباً باعثاً و جالباً للمعصیۃ کسب الآلھۃ الباطلۃ و ضرب النساء بارجلھن و خضوعھن فی الکلام فان ھذہ کلھا اسباب جالبۃ للمعصیۃ فتعد اسبابا قریبۃ و اما اذا کان سببا بعیدا کبیع العصیر لمن یتخذہ خمرا او اجارۃ الدار لمن یتعاطی فیھا بالمعاصی و عبادۃ غیر اللہ فان لم یعلم بقصد المشتری و المستجیر، و بما یعمل فیہ جاز بلا کراھۃ و ان علم ذالک کرہ تنزیھا فان ھذا البیع و الاجارۃ لیس سببا جالبا و باعشا للمعصیۃ کسب الآلھۃ و ضرب النساء بالارجل ما لم ینوا او بصرح بعمل المعصیۃ، نعم! بعد العلم بما یعمل لا یخلو عن شئ من التسبب للمعصیۃ و لو بعیداً فکان التنزہ عنہ اولی۔

الفتاوی التتارخانیۃ، کتاب الغضب، الفصل التاسع 16:509

غضب عشرۃَ دنانیر، فالقی فیھا دیناراً ثم اعطی منہ رجلاً دیناراً جاز،ثم دینارا آخر لا۔۔۔۔۔و اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

محمد عارف خان 

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی 

17/جمادی الثانیۃ /1434ء

28/اپریل2013ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/902812346754678/

اپنا تبصرہ بھیجیں