فتویٰ نمبر:525
سوال: بینک میں ملازمت کے حوالے سے علماء کیا فرماتے ہیں ؟
جواب:سودی بینک میں ملازمت سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:
(۱لف): اگر ملازم کا تعلق براہ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے نہ ہوجیسےچوکیدار،ڈرائیور،نئے نوٹ چھاپنا،اسکی کاپی دینا،پرانے نوٹ تبدیل کرنا ،حکومت کےجائز ٹیکس وصول کرنا،صفائی اور چائے بنانےوالاوغیر ہ ہو تواس ملازمت کی گنجائش ہے ، اوراس پر ملنے والی تنخواہ بھی حلال ہے۔(ب):اور اگر ملازم کا تعلق براہِ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے ہو مثلا ً جیسے مینیجر،کیشئر ،اکاؤٹنٹ، سودی قرضہ فراہم کرنا،اصل سودی بینکنگ سسٹم کی کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والاوغیرہ تویہ ملازمت ناجائز ہے ،اور اس پر ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے۔
القران الکریم:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة : 2]
احکام القرآن (۳؍۷۹):
ثم السبب القریب ایضاً علی قسمین:سبب محرک وباعث علی المعصیة بحیث لولاہ لما اقدم الفاعل عین ھذہ المعصیة۔۔۔۔۔۔وسبب لیس کذلک ولکنه یعین لمرید المعصیة ویوصله الی ما یھواہ۔۔۔۔۔ فالقسم الاول حرام بنص القرآن،والثانی ان کان بحیث یعمل به من دون احداث صنعة منه یلتحق به یکرہ تحریما،وان کان یحتاج الی عمل وصنعة یکرہ تنزیها
احكام القرآن( ٣؍٧٨)
وحاصل ما قلناه كله :ان الاعانة علي المعصية لا تتحقق الا بنية الاعانة حقيقة او حكما ،بان يصرح بقصدالمعصية سواءقصدها اولا ،اوكان المحل مخصوصا بالمعصية لا يستعمل الا فيها
واللہ تعالی اعلم بالصواب