بی سی کی رقم کو ذاتی استعال میں لانا

سوال ۔ میں نے گھر میں بی سی رکھی ہے ہزار ہزار والی ۔ امی اور بہنوں نے مل کر رکھی ہے ان سب کے پیسے اجاتے ہیں اور مہینے کی دس کو بی سی کھلتی ہے تو میں دے دیتی ہوں اب ان کی جو رقم اتی ہے تو کیا میں اس کو شدید مجبوری کے وقت استعمال کرسکتی ہوں ،مثلا: کبھی کرایہ لینے والا آجاتا ہےتو ضرورت کےوقت ،اس میں سے نکال کر دے دوں اور کبھی بہت مجبوری میں لے لوں اور بی سی کھلتے وقت واپس دے دوں تو کیا میرا لینا درست ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ بی سی کی جمع شدہ رقم کی حیثیت امانت کی سی ہے اور بی سی جمع کرنے والے کی حیثیت امین کی ہے، امین پر شرعاً واجب ہے کہ مجموعی رقم کی حفاظت کرے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرے اور نہ ہی اس رقم کو مالک کی اجازت کے بغیر استعمال کرے،اگر کسی وقت استعمال کر لی تو بہرصورت اس کا ضمان لازم ہوگا۔

لہذا مذکورہ صورت اگر بی سی کی رقم خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے تو پھر پہلے سے ہی ممبران کی جانب سے بی سی کی رقم کو استعمال کرنے کی اجازت لے لی جائے یا ان کے علم میں میں لایا جائے۔اس کے بغیر استعمال کرنا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کما فی الشامیۃ:

لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته

(ج: 6، ص: 200، ط: دار الفکر)

وفی الھندیۃ:

وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق.

(ج: 4، ص: 338، ط: دار الفکر)

وفي بدائع الصنائع:

ﻭﻟﻮ ﺃﻧﻔﻖ اﻟﻤﻮﺩﻉ ﺑﻌﺾ اﻟﻮﺩﻳﻌﺔ؛ ﺿﻤﻦ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﺃﻧﻔﻖ، ﻭﻻ ﻳﻀﻤﻦ اﻟﺒﺎﻗﻲ؛ ﻷﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﻮﺟﺪ ﻣﻨﻪ ﺇﻻ ﺇﺗﻼﻑ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﺃﻧﻔﻖ؛ ﻭﻟﻮ ﺭﺩ ﻣﺜﻠﻪ ﻓﺨﻠﻄﻪ ﺑﺎﻟﺒﺎﻗﻲ ﻳﻀﻤﻦ اﻟﻜﻞ؛ ﻟﻮﺟﻮﺩ ﺇﺗﻼﻑ اﻟﻜﻞ ﻣﻨﻪ: اﻟﻨﺼﻒ ﺑﺎﻹﺗﻼﻑ، ﻭاﻟﻨﺼﻒ اﻟﺒﺎﻗﻲ ﺑﺎﻟﺨﻠﻂ؛ ﻟﻜﻮﻥ اﻟﺨﻠﻂ ﺇﺗﻼﻓﺎ ﻋﻠﻰ ﺑﻴﻨﺎ ﻭﻟﻮ ﺃﺧﺬ ﺑﻌﺾ ﺩﺭاﻫﻢ اﻟﻮﺩﻳﻌﺔ؛ ﻟﻴﻨﻔﻘﻬﺎ ﻓﻠﻢ ﻳﻨﻔﻘﻬﺎ، ﺛﻢ ﺭﺩﻫﺎ ﺇﻟﻰ ﻣﻮﺿﻌﻬﺎ ﺑﻌﺪ ﺃﻳﺎﻡ؛ ﻓﻀﺎﻋﺖ ﻻ ﺿﻤﺎﻥ ﻋﻠﻴﻪ ﻋﻨﺪﻧﺎ.

(ج:٦، ص:٢١٣، ط: دار الكتب العلمية )

وفی شرح المجلة:

لا يتعين الثمن بالتعيين في العقد مثلا لو أرى المشتري البائع ذهبا مجيديا في يده ثم اشترى بذلك الذهب شيئا لا يجبر على أداء ذلك الذهب بعينه بل له أن يعطي البائع ذهبا مجيديا من ذلك النوع غير الذي أراه. إياه.۔۔۔۔۔فإذا إذا كانت العقود ليست للمعاوضة كالأمانة والوكالة والشركة والمضاربة والغصب فالنقود تتعين فيها بالتعين:

مثال ذلك الأمانة – إذا أودع إنسان آخر مائة دينار فإذا كانت تلك الدنانير موجودة عينا وجب على المودع أن يردها عينا إلى صاحبها وليس له أن يبقي تلك النقود ويدفع إلى المودع غيرها بغير رضاه.

(مادة:٢٤٣، ج:١،ص: ٢٢٤، ط: دار الجيل

کمیٹی میں تمام شرکاء کواگربرابر کی رقم دی جائے اورتمام شرکاءاخیرتک کمیٹی بھرنے میں شریک رہیں ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائےتو اس طرح کی کمیٹی (بی سی ) ڈالنا جائزہے۔اور اس رقم کے ذریعہ عمرہ کرنابھی درست ہے۔لہذا اس حیثیت سے مذکورہ بالاعمرہ کمیٹی کاطریقہ کار جائز ہے کہ ہر ممبرکوعمرہ پیکج میں برابر کی رقم کی سہولت دی جاتی ہے اور تمام ممبران اخیر تک کمیٹی کے بھرنے میں شریک رہتے ہیں۔

البتہ کمیٹی کے ذریعہ جمع ہونے والی رقم منتظمین کے پاس امانت ہوتی ہے اور شرعی طور پر امانت کی رقم کو کاروبار میں لگانایااستعمال میں لانا بغیراجازت کے جائز نہیں؛ اس لیے مذکورہ بالاکمیٹی کے منتظمین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کمیٹی کے ذریعہ جمع ہونے والی رقم کو اپنے ذاتی کاروبار میں لگاکر اس سے نفع حاصل کریں۔فقط واللہ اعلم

ماخذ: دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن

فتوی نمبر: 143901200096

فقط واللہ اعلم بالصواب۔

اپنا تبصرہ بھیجیں