چینل پرموٹ کرنے کے بدلے انعام دینا

سوال: بعض پیجز پہ لوگ اپنے یوٹیوب چینل وغیرہ کو متعارف کروانے کے لئے سبسکرائیبرز بڑھانے کے لئے کچھ ایکٹیویٹی رکھتے ہیں جسے giveaway کہہ دیا جاتا ہے، جس میں کچھ شرائط رکھی جاتی ہیں مثلاً آپ اس چینل کو سبسکرائیب اور لائیک کرے ،تین اور لوگوں کو ٹیگ کریں مطلب وہ بھی چینل کو سبسکرائیب کریں، اس پوسٹ کو شیئر کریں اس طرح کی کچھ شرائط ہوتی ہیں ، بدلے میں سب لوگ جو ان شرائط کو پورا کرتے ہیں ان میں قرعہ نکال کہ انکو انعام دیتے ہیں ، انعام کچھ بھی ہو سکتا ہے پیسے یا کوئی گفٹ، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

مطلب چینل وغیرہ کو پروموٹ کرنے کے لئے ادائیگی کرنا؟

تنقیح: سوال میں جن شرائط کا ذکر ہے وہ شرائط بتائیے

جواب:

1۔ چینل کو سبسکرائیب اور لائیک کریں

2۔ تین اور لوگوں کو ٹیگ کریں مطلب وہ بھی چینل کو سبسکرائیب کریں،

3۔ اس پوسٹ کو شیئر کریں

4۔ ویڈیوز کے نیچے کمنٹ، اسکا سکرین شاٹ لے کے شیئر کریں،

5۔ جب سب سٹیپ ہو جائیں تو اس پوسٹ کے نیچے don لکھیں

پھر لکی ڈرا ہوتا ہے جس جس نے حصہ لیا ہوتا ان سب کے ناموں سے، جو جیت جائے اسے کوئ گفٹ یا پیسے جو کے پہلے ہی طے کر دیئے جاتے ہیں وہ دیا جاتا ہے

الجواب باسم ملھم الصواب

یو ٹیوب پر اپنے سبسکرائبرز بڑھانے کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے انعام دینا کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔

(1) چینل پر ویڈیوز اور اس پر چلنے والے اشتہارات، خواتین کی تصاویر، میوزک اور دوسرے شرعی منکرات پر مشتمل نہ ہوں۔

(2) چینل پر صرف وہ ویڈیوز اپلوڈ کی جائیں، جو صرف جائز اور فائدہ مند معلومات پر مشتمل ہوں۔

اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی چینل بنایا جائے اور اسے سبسکرائب اور لائک کے بدلے ،پروموٹ کرنے والوں کو انعام دیا جائے تو یہ جائز ہے (کیونکہ قمار(جوا ) کےزمرےمیں نہیں آئے گا ،بلکہ تبرع اور احسان شمار ہوگا )اور لوگوں کے لیے اس انعام اور پیسے کا لینا بھی درست ہوگا۔

بشرطیکہ جو شرائط آپ نے سوال میں ذکر کی ہیں ان کی رعایت کی جائے۔

___________

حوالہ جات:

1. وأما الصورة الحرام اتفاقا: فهي أن يكون العوض من كل واحد، على أنه إن سبق فله العوض، وإن سبق فيغرم لصاحبه مثله. وبه يتبين أن السباق يحرم حينما يكون هناك احتمال الأخذ والعطاء من الطرفين، بأن يقال: السابق يأخذ، والخاسر يغرم أو يدفع. وهذا معنى الميسر أو القمار المحرم شرعا.”

(الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي6/4880ط: دار الفکر)

2. وفيه دليل أنه لا بأس باستعمال القرعة في القسمة فقد «استعمل رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ذلك في قسمة الغنيمة مع نهيه صلوات الله عليه عن القمار» فدل أن استعماله ليس من القمار”

(المبسوط للسرخسي15/4 ط:دار المعرفة)

3. فتبصر (إن شرط لمال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لانه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز، ثم إذا سبقهما أخذ منهما، وإن سبقاه لم يعطهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه”

(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 663)ط:دار الکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

27جمادی الثانی 1443

31جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں