چوزوں پر زکوٰۃ کاحکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:109

Hatchingکے کاروبار میں قابلِ زکاۃ مال کی تعیین 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب مد ظلہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

درج ذیل مسئلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے:

کے کاروبار میں قابل ِزکاۃ مال کی تعیین Hatching  : موضوع

کہا       Breader کا کام کرتے ہیں یعنی مطلوبہ تعداد میں چوزے(جن کو Hatchingلوگ مرغی اور چوزوں کے کاروبار سے منسلک ہیں ،ہم ہم          

جاتاہے)خرید کر اپنے خرچے پر انہیں پالتے ہیں ، جب وہ 23/24 ہفتہ کے ہو جاتے ہیں تو وہ انڈے دینا شروع کر دیتے ہیں ،ہم ان حاصل شدہ انڈوں کو (انڈوں سے چوزہ نکالنے والی) خاص مشینوں میں رکھ کر ان کی خوب دیکھ بھال کرتے ہیں ، یہ مشینیں انڈوں کو مرغی کے متبادل کے طور پر ایک خاص پیمانے پر حرارت مہیا کرتی ہیں جس سے انڈے کے اندر چوزہ بننے کا عمل قائم ہوتا ہے،ان مشینوں پر بھی کثیر اخراجات آتے ہیں ،اس طرح 21 دنوں میں ان انڈوں سے چوزے حاصل ہو جاتے ہیں،ہم ان میں سے صحت مند چوزے پولٹری فارم والوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں اور نا قابل ِ فروخت چوزے شرعی طریقے سے تلف کر دیئے جاتے ہیں ۔

چونکہ ہر سال زکاۃ کا حساب کرنا ہوتا ہے ،اسی حوالے سے درج ذیل نکات سے متعلق کچھ وضاحت درکار ہے:        

1:   باب الزکاۃ میں “مال ِ تجارت”عموماًاس مال کو کہا جاتا ہے جو آگے فروخت کرنے کی نیت سے اپنی ملکیت میں لیا جائے (ملاحظہ حوالہ نمبر 1 تا 4)۔

(انڈوں سے نکلنے والے چوزے)ہیں جو کہ ہم خریدتے نہیں ہیں  Broiler  Chicksکے اس کاروبار میں فروخت ہونے والی چیزHatcheryاب                                 ہم اپنی پالی ہوئی مرغیوں کے انڈوں سے حاصل کرتے ہیں۔ Broiler  Chicks بلکہ یہ

یعنی مسئلہ یہ ہے کہ:

وہ خریدا نہیں جاتا ،نہ کسی عقدِ معاوضہ کے نتیجے میں ہماری ملکیت میں آتا ہے حتی کہ اس کی Broiler  Chicksا:   جو مال فروخت ہوتا ہے یعنی براہِ راست اصل یعنی انڈے بھی نہیں خریدے جاتے ۔

ب:  جو مال خریدا جاتا ہےیعنی مر غیاں ان کو فروخت کی نیت سے نہیں خریدا جاتا بلکہ ان کو چوزوں کی شکل میں خرید کر ان کو اپنی غذا دی جاتی ہےاور مرغی بننی کے بعد ان سے انڈے حاصل کیے جاتے ہیں ، پھر ان انڈوں کو بھی فروخت نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر معقول اخراجات کر کے مشینوں میں رکھا جاتا ہے ، (ایک انڈے پر تقریباً 30 تا 35 روپے کے اخراجات بتفاوتِ حالات آتے ہیں )حتی کہ ان سے چوزے حاصل ہوتے ہیں ۔

2:  اس کاروبار  کی زکاۃ کے حوالے سے اکابر کے فتاوی میں کوئی ہماری نظر سے نہیں گزرا ، البتہ دیگر کاروبار کی نسبت سے ہمارے کاروبار سے قریب ترین کاروبار پولٹری فارم ، ڈیری فارم وغیرہ سے متعلق جو آراء اور فتوی ہمارے سامنے آئے وہ ذیل میں مذکور ہیں ،تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ پولٹری

کے اس کاروبار میں کافی فرق ہے(جیسا کہ صفحہ نمبر 4 Hatcheryفارم اور ڈیری فارم کے کاروبار قریب ترین ہونے کے باوجود ان میں اور ہمارے

پر آنے والے نقشے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے)۔

اس سلسلے میں 4 آراء ہمارے سامنے آئی ہیں :

سامنے آنے والی آراء

پہلی رائے : اس میں کوئی ذکاۃ نہیں :

یہ رائے درج ذیل اداروں کی ہے:

الف:  دارالافتاء مصریہ

خلاصہ:  زکاۃ کے معاملے میں معیار عقل نہیں ہے بلکہ نصوص ہیں ، لہذا جن اشیاء کے بارے میں نص وارد ہوئی ہے ان میں زکاۃ ہوگی اور جن کے

  کےکاروبار میں جو اشیاء خریدی جاتی ہیں ان پر ان کے نماء میں  Hatcheryبارے میں کوئی نص نہیں ہے تو وہاں اصل عدم زکاۃ ہے چنانچہ پولٹری یا 

زکاۃ نہیں ہو گی بلکہ صرف وہ نقدی جو اس کو فروخت کرنے کے نتیجے میں جمع ہو وہ قابلِ زکاۃ ہوگی(ملاحظہ حوالہ نمبر5تا 6)۔

ب: مرکز الفتوی ( التابع لادارۃ الدعوۃ و الارشاد الدینی بوزارۃ الاوقاف و الشؤون الاسلامیۃ بدولۃ قطر)

خلاصہ:  پولٹری اور انڈوں میں زکاۃ واجب نہیں ، البتہ اس کاروبا رمیں حاصل ہونے والی آمدنی پر زکاۃ واجب نہیں ہو گی (ملاحظہ حوالہ نمبر7)۔

دوسری رائے : اگر بیع کے لیے ہوں تو زکاۃ ہوگی:

یہ رائے درج ذیل حضرات کی ہے :

الف:  مکتبۃ الفتاوی: فتاوی نور علی الدرب(محمد بن صالح العثیمین)

خلاصہ:  پو لٹری فارم کی مرغیاں اگر مسلسل مال تجارت بنی ہوئی ہوں یعنی بار بار ان کی تبدیلی بیع و شراء کے نتیجے میں ہو رہی ہو تو ان کی “قیمت” پر زکاۃ آئے گی کیونکہ یہ مال تجارت ہیں لیکن اگر ان سے استیلاد و تنعیہ مقصود ہو اور ان کو سال کے اکثر حصے میں اسی فارم سے خوراک دی جاتی ہو (یعنی قدرتی مفت غذا پر انہیں پلتیں )تو ان پر زکاۃ واجب نہیں کیونکہ وہ سائمہ نہیں (ملاحظہ حوالہ نمبر 8)۔

ب:  طریق الاسلام

خلاصہ:  جو بیع کے لیے ہوں تو ان پر زکاۃ ہو گی (ملاحظہ حوالہ نمبر 9)۔

ج:  صلح الصاوی

خلاصہ:  فی ذاتہ مرغیوں میں زکاۃ نہیں البتہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو سامان تجارت والی زکاۃ ہوگی(ملاحظہ حوالہ نمبر 10)۔

تیسری رائے : احتیاطا نماز قابل زکاۃ :

اس کے بارے میں ایک فتوی منسلک ہے (نمبر 1444/51 ) جس میں ڈیری فارم کے کاروبار میں اصل بھینسوں اور مرغیوں کو تو قابل زکاۃ شمار نہیں فرمایا البتہ اس فتوی میں حضرا ت فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالی کے کلام میں کوئی صراحت نہ ملنے کا ذکر کرنے کے بعد احتیاطاً ان کے نماز پر زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے (ملاحظہ ہو فوٹو کاپی ، حوالہ نمبر 12)۔

چوتھی رائے : خود مویشی ہی اموال تجارت شمار ہوں گے:

“اسلامی معاشیات ۔بنیادی خاکہ (مرتب : حضرت مولانا ادریس میر میٹھی صاحب رحمہ اللہ ) میں اموال سائمہ کی زکاۃ کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

یہی مویشی اگر افزائش نسل کے بجائے ان کی یا ان کے منافع،دودھ ،اون وغیرہ کی تجارت کی غرض سے پالے ہوں تو اموال تجارت میں محسوب ہوں گے (صفحہ نمبر 55 ، ملاحظہ ہو فوٹوکاپی : حوالہ نمبر 13)۔

اس میں حضرت نے براہ راست ان مویشیوں کو ہی مال تجارت شمار کیا ہے جو کہ بالکل الگ نقطہ نظر ہے۔

پانچویں رائے : نماز پر عشر واجب ہے:

“فقہ الزکاۃ “میں علامہ یوسف القرضاوی نے بعض شیعہ فقہاء سے یہ مسئلہ منقول فرمایا ہے کہ ایسے کاروبار میں نماء پر عشر واجب ہو گا ۔

خلاصہ :  اس مسئلہ کو ان حضرات نے زکاۃ العسل پر قیاس کیا ہے اور فقہ کی دیگر جزئیات سے یہ قائدہ استنباط کیا ہے کہ جس شے کی اصل پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی تو اس شے کی نماء اور نتائج پر زکاۃ واجب ہوتی ہے جیسا کہ الزرع بالنسبۃ للارض، و العسل بالنسبۃ للنحل، و الالبان بالنسبۃ للانعام، و البیض بالنسبۃ للدجاج، و الحریر بالنسبۃ للدود(ملاحظہ حوالہ نمبر 11)۔

یہ تمام مختلف آراء اس مسئلے میں ہیں کہ جب جانور خرید کر پالنے کے بعد خود اس کو یا اس کی نماء کو فروخت کرنے کی نیت ہو لیکن ہمارے مسئلے میں ایک

خریدتے ہیں جن سے ہمارا مقصود صرف (Breader) اور بڑا فرق یہ ہے کہ ہم تو براہ راست اپنے خریدے ہوئے جانور کا نماء بھی نہیں بیچتے ہم چوزے انڈے حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ پھر 24/23  ہفتوں تک ان کو اپنی غذا دینے کے بعد ان سے انڈے حاصل ہوتے ہیں ، پھر ان انڈوں کو ایک خاص مدت

حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر ان میں سے صحت مند چوزے ہم فروخت کرتےہیں ۔(Broiler Chicks)تک مشینوں میں رکھ کر ان سے چوزے اس فرق کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔

دودھ(فروخت کیا جانے والا مال)çڈیری فارم :  بھینس 

انڈے(فروخت کیا جانے والا مال)çمرغیçپولٹری فارم:  چوزے

چوزے(فروخت کیا جانے والا مال) çانڈے çمرغیç  چوزے:HATCHERY

مندرجہ بالا صورتحال ، اختلاف ِ آراء اور مذکورہ دلائل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں :

سوالات:

1:  ہمارے اس کاروبار میں زکاۃ کے کیا احکام ہوں گے ؟ کیا ان میں سے کوئی مال قابلِ زکاۃ شمار کیا جائے گایا نہیں ؟

کویا ان کے انڈوں کویا ان انڈوں سے حاصل ہونے والےصحت مند قابل ِ فروخت Breader2:  اس میں مال ِ تجارت کس مال کو سمجھا جائے  گا؟ چوزوں کو یا تمام چوزوں کو؟

تو کیا حکم ہوگا؟(breader) اگر زکاۃ کی تاریخ کو صرف وہ چوزے یا مرغیاں موجود ہوں جنہیں ہم نے خریدا تھا:3

4:  اگر مرغیوں کے دیے ہوئے انڈے بھی موجود ہوں تو مرغیوں اور انڈوں دونوں کا الگ الگ کیا حکم ہو گا؟

5:  اگر مرغیوں کے ساتھ کچھ انڈے اور کچھ چوزے یا صرف چوزے موجود ہوں تو کیا حکم ہے؟

براہِ کرام مفصل جواب دے کر ممنون فرمائیں                                             

والسلام                                                                 

                                                                 مستفتی

                                                           اظفر  اقبال  رشید

                                                          مشیر شرعی امور

                                                    میگا پولٹری کمپنی۔کراچی

                                                       جواب منسلک ہے

حوالے جات

1:  فتح القدیر لکمال بن الھمام(3/495)

الحاصل ان نیۃ التجارۃ فیما یشتری بہ تصح بالاجمال و فیما یرثہ لا تصح بالاجماع لانہ لا صنع لہ فیہ اصلا۔

2:  فتح القدیر لکمال بن الھمام(4/98)

(قولہ و تشترط نیۃ التجارۃ) لانہ لما لم تکن تجارۃ خلفۃ فلا یصیر لھا الا بقصدھا فیہ، و ذالک ھو نیۃ التجارۃ، فلو اشتریع عبد امثالا للخدمتنا و باییعہ ان وجد رجالا زکاۃ فیہ۔۔۔۔۔۔و اعلم ان نیۃ التجارۃ فی الاصل تعتبر ثابتہ فی بدلہ و ان لم یتحقق شخصھا فیہ۔

3:  الفتاوی الھندیۃ(1/174)

و نیۃ التجارۃ و الاسلامیۃ لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارۃ او الاسامۃ ثم نیۃ التجارۃ قد تکون صریحا و قد تکون دلالۃ فالصریح ان ینوی عند عقد التجارۃ ان یکون المملوک للتجارۃ سواء کان ذالک العقد شراء او اجارۃ و سواء کان ذلک الثمن من النقود او العروض و اما الدلالۃ فھی ان یشتری عینا من الاعیان بعروض التجارۃ او یؤاجر دارہ التی للجارۃ بعرض من العروض فتصیر للتجارۃ و ان لم ینو التجارۃ صریحا۔

4:  حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح(ص:471)

انما یزکی بنیۃ التجارۃ عند العقد فلو نوی التجارۃ بعد العقد او اشتری شیئا للقنیۃ ناویا انہ ان وجد ربحا باعہ لا زکاۃ علیہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

  

 5:  فتوی کا خلاصۃ(انگریزی)

THE RULING

There is no zakat on raising poultry for meat or selling their produce, whether eggs or chicks. Zakat is only payable on the net cash profits generated from this business activity or any other if it reaches nisab (En. The minimum amount upon which zakat is due) and after one lunar year passes.

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے  دیے گئے لنک پر کلک کریں : https://www.facebook.com/groups/497276240641626/549370835432166/

اپنا تبصرہ بھیجیں