دفن کرنے سے پہلے میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا

سوال:ایک مسئلہ فی الفور دریافت طلب ھےہمارے ہاں  مقیم متاثرین کے گھر میں کسی کا انتقال ھوا  اب متاثرین میت کو دور دراز اپنے علاقے میں منتقل کرنا چاہتے ہیں  اب یہاں  کے مکین اس کو جنازہ دیں  یا صرف وہاں اس  کے گاوں والے جنازہپڑھائے یا دونوں جگہ جنازہ دیا جائے بہتر کونسا طریقہہے ؟

الجواب حامدا و مصلیا
دفن کرنے سے پہلے میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا فقہاء ِحنفیہ کے مفتیٰ بہ قول میں مکروہ تحریمی ہےاورفتویٰ بھی کراہت پر ہے لہذا شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔(ماخذہ فتاوی عثمانی :۱/۵۶۹)
تاہم اگرکسی وجہ سے میت کو دفن کرنےسے پہلے اس کے آبائی شہر میں منتقل کر لیا گیا ہو تو دوبارہ نماز ِجنازہ پڑھنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر ولی نے پہلی نمازِ جنازہ پڑھی ہو یا اس کی اجازت سے پڑھی گئی ہو تو دوبارہ آبائی شہرمیں نمازِ جنازہ پڑھنا درست نہیں البتہ اگر پہلی مرتبہ ولی نے پڑھی ہو اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی ہو تو ولی کے لیے دوبارہ پڑھنا درست ہےنیز جو لوگ پہلےشریک نہیں ہوئے وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں البتہ جو پہلےشریک ہو چکےہوں وہ شریک نہ ہوں۔(فتاویٰ محمودیہ :ج۸/ص۵۸۷)

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة – (5 / 216)
وقولها: لو شهدتك ما زرتك إلا في مكانك الذي مت فيه؛ دليل دفن الميت في مكانه الذي مات فيه، وفي مقابر ذلك القوم أفضل. قال محمد رحمه الله في «السير»: أحب إلينا أن ندفن الميت والقتيل في المكان الذي مات فيه في مقابر المسلمين … وإن نقل ميلاً أو ميلين أو نحو ذلك فلا بأس به، فقد نهى الناس عن النقل ميلاً أو ميلين، فهذا دليل على أن الزيادة على ذلك مكروه، وإنما صار قدر ميلين عفواً؛ لأنه لا بد منه في الأعم الأغلب، فإن الغالب في كل بلد أن تكون مقابرها بفنائها، وربما يكون من المكان الذي مات فيه إلى المقبرة قدر ميلين فصار هذا القدر عفواً، فأما الزيادة على ذلك …. الأعم والأغلب، وفيه تشبه باليهود وحمل الجنائز من غير فائدة فيكره؛ قال شمس الأئمة السرخسي في شرح «السير»: لو لم يكن في نقله إلا تأخير دفنه، لكان كافياً في كراهته، وذكر شيخ الإسلام في «شرحه»: أن نقل الميت من بلد إلى بلد لغرض ليس بمكروه.
وفي «العيون»: ذكر مطلقاً أن نقل الميت من بلد إلى بلد ليس بمكروه،
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 222)
(فإن صلى غيره) أي الولي (ممن ليس له حق التقديم) على الولي (ولم يتابعه) الولي (أعاد الولي) ولو على قبرهإن شاء لأجل حقه لا لإسقاط الفرض؛ ولذا قلنا: ليس لمن صلى عليها أن يعيد مع الولي لأن تكرارها غير مشروع (وإلا) أي وإن صلى من له حق التقدم كقاض أو نائبه أو إمام الحي أو من ليس له حق التقدم وتابعه الولي (لا) يعيد لأنهم أولى بالصلاة منه
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب

 

اپنا تبصرہ بھیجیں