دم شکرکااعادہ،افعال حج ترتیب

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب حامدا و مصلیا

(الف)

مذکورہ صورت میں آپکو جب تک وکیل کے قربانی (دم کر) نہ کرنے کا ظن غالب نہ ہو جائے جب تک شرعی لحاظ  سے آپ پر دم شکر کا اعادہ لازم نہیں، البتہ اگر کسی طرح وکیل کے بالکل دم شکر ادا نہ کرنے کا یقین ہو جائے تو ایسی صورت میں آپ پر دم شکر  کا اعادہ لازم ہوگا، نیز اس صورت میں اگر ایام قربانی  میں اعادہ نہیں ہوسکاتو ایام قربانی میں دم شکر ادا نہ کرنے کی وجہ سےدم بھی بھی دینا ہو گا۔

 اور جہاں تک وکیل  کے غلط بیانی کرکے قربانی، حلق  کے بعد کرنے کا تعلق ہے تو اسکی تفصیل (ب ،ج) میں آ رہی ہے.

لما في غنية الناسک، فصل فی شرائط وجوه ومكان ذبحه و زمانه، ط المطبعة الخيرية (ص ۱۱۱)

وبالزمان وهو أيام النحر حتى لو ذبح قبلها لم يجزه بالاجماع ولو ذبح بعدها اجزاء بالإجماع ولكن كان تاركا للواحب عند الإمام رحمه الله تعالی وتاركا للسنة عند غيره من الأئمہ

 وفيه ايضا، المطلب التاسع في ترك الواجب في الحلق والذبح (ص ۱۴۹)

ولو اخر القارن وللتمتع الذبح عن أيام النحر فعليه دم

 (ب،ج )۔ فقہاء حنفیہ کے نزدیک حج  کے تین احکام یعنی رمی، قربانی اور حلق کو ترتیب وار ادا کرنا واجب ہے، اور قصدا اس ترتیب کے خلاف کرنے سے دم واجب ہو گا، اس لئے احناف حجاج کیلئےاپنی  قدرت و طاقت کی حد تک اس ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے، لہذا حجاج کرام جس قدر اپنے طور پر احتیاط کر سکتے ہیں وہ  کریں، مثلا وکیلوں کی طرف سے قربانی کا جو وقت بتایا گیاہو، قرآن اور تمتع کرنے والے حضرات بتائے ہوئے وقت سے پہلے قصر و حلق نہ کریں، بلکہ حسب استطاعت اس قدر تاخیر کے ساتھ حلق یا قصر  کریں کہ دل میں ان کی قربانی ہو جانے کا ظن غالب یعنی غالب رجحان پیدا ہو جائے۔

نیز شرعی لحاظ سے دیانات میں ایک ثقہ مسلمان کے قول پر عمل کرنے گنجائش ہے، لہذا اگر وکیل یہ کہہ دے  کہ آپکی قربانی ہوگئی ہے اور بظاہر اس کے خلاف کوئی دلیل نہ ہو تواسی صورت میں آپ کے لئے حلق و قصر کر لینا جائز ہے .

تاہم اگر تمام تر کوششوں کے باوجودحاجی یوم النحر کے مناسک کو ذکر کردہ ترتیبواجب  کے مطابق  ادا کرنے پر قادر نہ ہو، بلکہ انتظامی پیچیدگیوں  کی وجہ سے ترتیب کو قائم نہ رکھ سکے  اور اس کے لیے اپنے اختیار سے بالکل مقررہ وقت پر یعنی حلق سے  پہلے قربانی کرنا یا کروانا یا اسکے  اوقات میں ردو بدل کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی  مجبوری میں اگر ان افعال کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر  ہو جائے تو چونکہ  حضرات صاحبین اور آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ترتیب واجب نہیں اور نہ ہی خلاف ترتیب کی صورت میں دم واجب ہے، اس لیے اگر مالی وسعت  نہ ہونے کی صورت میں ان کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دم نہ دیا جائے تو اس کی گنجائش  ہے، لیکن اگر کوئی دیدے تو زیادہ احتیاط کی بات ہے (ماخذه التبویب ۳۰/١٥٦٤)

لما في الفتاوی الهندیة، کتاب الكراهية الفصل الأول في الأخبار عن أمر دهی، ط دار الفكر (٥/٣٠٨)

خير الواحد يقبل في الدیانات کالحل والحرمة والطهارة والنجاسة إذا كان مسلما عدلا ذكرا اوانثی  حرا او عبدا محدود اأو لا، ولا يشترط لفظ الشهادة والعيد، كذا في الوجيز للكردري، وهكذا في محيط السرخسي والهداية، ولايقبل قول الكافر في الديانات إلا إذا كان قبول قول الكافر في المعاملات يتضمن قوله في الديانات، فحينئذ تدخل الديانات في ضمن العاملات فيقبل قوله فيها  ضرورة هكذا في التبيين

 (۲)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل یعنی مثلا ٣٥  حاجیوں کی طرف سے ۲۵ جانور کی اجازت سےتعیین  کے بغیرذبح  کردینے سے استحسا نا ان  حجاج کرام کی قربانی درست ہو جائے گی۔

لما في الفتاوی الهندية، کتاب الأضحية ، الباب التاسع في المتفرفات، ط دار الفكر (٥/٤٠٦)

وفي الأضاحي للزعفران اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها كذلك فالقياس أن لا يجوز، وفي  الاستحسان يجوز، فقوله اشتری سبعة نفر سبع شباه بينهم محتمل شراء كل شاة بينهم ويحتمل شراء شها، على أن يكون لكل واحد شاة ولكن لا بعينها، فإن كان المراد هو الثاني فما ذكر في الجواب باتفاق الروايات، لأن كل واحد منهم يصير مضحيا شاة كاملة، وإن كان المراد هو الأول فيما ذكر من الجواب على إحدى الروايتين، فإن الغنم إذا كانت بين رجلين ضحيا بها ذكر في بعض المواضع أنه لا يجوز، كذا في المحيط.

وفيها أيضا ، کتاب الأضحية الباب السابع في التضحية أن الغير . ط دار الفكر (٥/٤٠٢)

أربعة نفر لكل واحد منهم شاة حبوها يت فماتت واحدة لا يدري لمن هي؟. تباع هذه الأغنام جملة وتشتري  بثمنها اربع شياه لكل واحد منهم شاة  ثم  يوكل كل واحد منهم صاحبه بذبح كل واحدة منها ويحلل كل واحدمنهم أصحابه أيضا حتي يجوز  عن الأضحية، كذا في الخلاصة

٣) (الف)  حضرات فقہاء احناف کے نزدیک منی میں  رات کا قیام سنت ہے .

(ب). مسؤلہ  صورت میں رات کے قیام کی سنت ادا ہوجائے گی  ، البته بلاعذر رات کا اکثر  حصّہ ہوٹل میں گزارنا ترک سنت ہے ، اس سے بچنا لازم  ہے الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔

لما في البحر الرائق، کتاب الحج باب الإحرام الاغتسال  ودخول الحمام للمحرم ط دار الكتاب  الاسلامی (۲/ ۳۲۱)

“البنوتة بها  سنة والإقامة بها مندوبة كذا في المحيط، ولو لم يخرج من مكة إلا يوم عرفة أحزاء أيضا، ولكنه أساء لترك السنة الى قوله

وهذا بيان الأفضل حتى لو ذهب قبل طلوع الفجر إليها جاز کما يفعله الحجاج في زماننا فإن اكثرهم لا ييبت بمني لتوهم الضرر من السراق

” وفي غنية الناسك، فصل في العود إلى مني وما له الإعتناء به أيام قيامه بها،ط المطبعة الخيرية ، ص ٩٨)

و يسن ان يبيت بمني ليالي ايام الرمي فلوبات بغيرها متعمدا كره ولاشيء عليه

وفي المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة، کتاب الطلاق، الفصل السادس والعشرون في مسائل العدة بالحيض، ط دار الكتب العلمية – (۳/ ۴٦۷ )

والبيتوتة هي الكينونة في جميع الليل أو أكثرها

 والله تعالى أعلم

عزیر طارق بلوانی

دارالافتاء جامعہ دارلعلوم کراچی

٢٣ ربیع الثانی ١٤٣٨

٢٢ جنوری ٢٠١٧

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/662951440740771/

اپنا تبصرہ بھیجیں