دوائی کے بعد یاشافی یاکافی کہنا

سوال: ہم کہتے ہیں ”اللہ شافی اللہ کافی“ ۔ کوئی بھی دوا لینے سے پہلے تو کیا یہ درست ہے؟

جواب: یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔

الجواب باسم ملہم الصواب:

جواب سے پہلے بدعت کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن عائشة رضی الله تعالی عنھا قالت:قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم:من احدث فی امرنا ھذا مالیس منه فھو رد، متفق علیه۔“

(مشکاة المصابیح:کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنة،الفصل الاول،٢٧)

ترجمہ:

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے حکم(دین) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“

اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ایسی چیز پیدا کرنا جس کی اصل دین میں نہ ہو یہ بدعت ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دوائی سے پہلے ”یا شافی یا کافی“ یا اسی طرح ”اللہ شافی، اللہ کافی“ بدعت نہیں ہے،بلکہ دعائیہ کلمات ہیں۔

شافی کا معنی شفا دینے والا، کافی کا معنی کفایت کرنے والا ،گویا یہ اس طرح ہوگیا، جیسے دوائی سے پہلے یہ کہا جارہا ہے: اے اللہ! آپ ہی شفا دینے والے ہیں،آپ ہی سے شفا مل سکتی ہے، آپ ہی میرے لیے کافی ہیں،لہذا ان کلمات کو بسم اللہ پڑھنے کے بعد پڑھا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواله جات:

١.”البدعة ما احدث ولیس له اصل فی الشرع“.

(فتح الباری:کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله صلی الله علیه وسلم،٢٥٣/١٣،المطبوعة، مکتبة الریاض الحدیثیہ،البطحاء،الریاض)

2.المراد بالبدعة مااحدث ممالا اصل له فی الشریعة یدل علیه، واما ما کان له اصل من الشرع یدل علیه فلیس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة.

(جامع العلوم والحکم فی شرح خمسین حدیثاً من جوامع الکلم لابن رجب الحنبلی،ص:١٩١،الحدیث الثامن والعشرون،تحت قولخ:وایاکم و محدثات الامور الخ ،المطبوعة: المطبع القرآن والسنة الواقع فی بلدة امرتسر)

فقط واللہ اعلم بالصواب

18نومبر 2021ء

11ربیع الثانی 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں