فیس بک واٹس اپ پر قرآنی آیت سینڈ کرنا

فتویٰ نمبر:564

سوال:فیس بک  واٹس اپ پر قرآن کی آیات پوسٹ کرنا یا کسی کو سینڈ کرنا کیسا ہے؟

الجواب حامدا و مصلیا
ذکیر و نصیحت کیلئےآیات ِقرآنیہ،احادیث مبارکہ اور دینی پیغامات(Messages) موبائل یا سوشل میڈیا وغیرہ پر بھیجنا فی نفسہٖ جائز ہیں،البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مذکورہ پیغامات تحقیق کئے بغیر نہ بھیجے جائیں نیزقرآن مجید کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے کسی اور رسم الخط میں لکھ کر بھیجنا جائز نہیں البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جا سکتا ہے۔
نیز ایسے پیغامات کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد موبائل سے ختم (Delete)کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ قرآن کواٹھالینے والےمضامین پرمشتمل احادیث کامصداق نہیں ہےبلکہ حدیث شریف میں قرآن کاسینوں سےاٹھانامرادہے البتہ اگرطبیعت پربوجھ نہ ہوتوانہیں پڑھنےکےبعدختم کرناچاہئے پڑھنےسےپہلےختم کرنےمیں چونکہ صورۃ ًاعراض پایا جاتا ہے اس لئے پڑھنے سے پہلے ختم نہ کرنا چاہےاوریہ حکم اس وقت ہےجب بھیجے جانے والے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ صحیح اورمستند بات ہے اوراگر اس کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہوتو پڑھے بغیربھی ختم (Delete)کیا جا سکتا ہے۔اورموبائل پیغامات کے آخرمیں یہ لکھنا کہ’’یہ پیغام اتنے لوگوں کوبھیجوگےتوآج رات میں یا جلدہی خوشخبری ملے گی اور نہ بھیجنے والے کو نقصان ہوگا اوریہ بات آزمائی ہوئی ہے‘‘ بےبنیادبات ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (2 / 196)
لا يبقى من الإسلام أي شعائره إلا اسمه أي ما يصح إطلاق اسم الإسلام عليه كلفظة الصلاة والزكاة والحج ولا يبقى من القرآن أي من علومه وآدابه إلا رسمه أي أثره الظاهر من قراءة لفظه وكتابة خطه بطريق الرسم والعادة لا على جهة تحصيل العلم والعبادة
شعب الإيمان  البيهقي –( 2 / 355)
عن بن مسعود أنه قال اقرؤوا القرآن قبل أن يرفع فإنه لا تقوم الساعة حتى
يرفع قالوا هذه المصاحف ترفع فكيف بما في صدور الناس قال يعدا عليه ليلا فيرفع من صدورهم فيصبحون فيقولون كأنا لم نعلم شيئا ثم يفيضون في الشعر
شعب الإيمان – البيهقي – (3 / 318)
عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” يوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود ”
الدر المختار – (1 / 178)
ولا يجوز لف شيء في كاغد فيه فقه وفي كتب الطب يجوز ولو فيه اسم الله أو الرسول فيجوز محوه ليلف فيه شيء ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز وقد ورد النهي في محو اسم الله بالبزاق وعنه عليه الصلاة والسلام القرآن أحب إلى الله تعالى من السموات والأرض ومن فيهن
الفتاوى الهندية (5/ 322):
ولو كان فيه اسم الله تعالى أو اسم النبي صلى الله عليه وآله وسلم ويجوز محوه ليلف فيه شيء كذا في القنية ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز…الخ
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (1 / 212)
وَلَا يَجُوزُ لَفُّ شَيْءٍ فِي كَاغَدٍ فِيهِ مَكْتُوبٌ مِنْ الْفِقْهِ وَفِي الْكَلَامِ الْأَوْلَى أَنْ لَا يَفْعَلَ وَفِي كُتُبِ الطِّبِّ يَجُوزُ وَلَوْ كَانَ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ اسْمُ النَّبِيِّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – فَيَجُوزُ مَحْوُهُ لِيُلَفَّ فِيهِ شَيْءٌ وَمَحْوُ بَعْضِ الْكِتَابَةِ بِالرِّيقِ يَجُوزُ، وَقَدْ وَرَدَ النَّهْيُ فِي مَحْوِ اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى بِالْبُزَاقِ مَحَا لَوْحًا يَكْتُبُ فِيهِ الْقُرْآنَ وَاسْتَعْمَلَهُ فِي أَمْرِ الدُّنْيَا
واللہ تعالی اعلم بالصواب
 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں