فیملی پلاننگ کا حکم

سوال:السلام علیکم!

فیملی پلاننگ کرنا صحیح ہے؟ اس کے لیے جو انجیکشن لگاتے ہیں اس کے کبھی سائیٹ ایفیکٹ ہو جاتے ہیں، یا کچھ ٹیبلٹ لینا صحیح ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام!

فیملی پلاننگ کی دو صورتیں ہیں:

1۔ قطعِ نسل:

کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے دائمی طور پر قوت تولید ختم ہوجائے، مثلا: عورت اپنی نس بندی کرالے یا مرد خصی بن جائے، یہ حرام ہے کسی مسلمان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں، اس میں اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا پایا جاتا ہے، جو درست نہیں۔

2۔ منع حمل:

کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے عارضی طور پر حمل نہ ٹھہرے، بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مکروہ ہے؛ البتہ اگر میاں بیوی کو کوئی عذر ہو، مثلاً: دونوں دور کے سفر پر ہوں اور حمل مشکلات کا سبب بن سکتا ہو، یا حمل کی وجہ سے پہلے بچے کو دودھ پلانا متاثر ہورہا ہو، یا عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان ڈاکٹر کے مطابق حمل ٹھہر جانے کی صورت میں عورت کو ناقابل برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا(اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو، تو اس طرح کے اعذار کی وجہ سے منع حمل کی تدبیر کرنا شرعاًجائز ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔تاہم طبی اعتبار سے اس کے سائیٹ ایفیکٹ ہیں،جو ماہر ڈاکٹرز سے معلوم کیے جاسکتے ہیں۔

جن صورتوں میں شریعت نے عارضی طور پر مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دی ہے ان میں بھی اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ عمل تنگ دستی اور افلاس کے خوف سے نہ ہو، اگر افلاس کی وجہ سے مانع حمل کی تدبیر کی تو وہ حرام ہے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

“منع حمل کی تدبیر اگر بطور علاج کے ہو کہ عورت کی صحت متحمل نہیں تو بلاکراہت جائز ہے، ورنہ مکروہ ہے، اور اس نیت سے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جائے، شرعاً گناہ ہے، گناہِ صغیرہ ہے یا کبیرہ؟ اس کی مجھے تحقیق نہیں”۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل: 7/ 349)

نومولود سے متعلق شرعی احکام میں ہے:

“کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو، منع حمل کے لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنے کی شرعا گنجائش ہے، مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کے لیے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا(اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا

ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر، بیوی کی اجازت اور رضا مندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے”۔

(نومولود سے متعلق شرعی احکام: 26)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ قال الله تعالى:

“ولَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِیَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا”.

(سورة بني إسرائيل:111)

ترجمہ:

“اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے، ہم تمھیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بيشک ان کا قتل بڑی خطا ہے”۔

2۔ “عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال رجل: یا رسول الله ! أيّ الذنب أکبر عند الله؟ قال: أن تدعوا لله ندّا وھو خلقك، قال: ثم أيّ؟ قال: أن تقتل ولدك خشیة أن یطعم معك، قال: ثم أيّ؟ قال: أن تزاني بحلیلة جارك، فأنزل الله عزوجل تصدیقها {والذي لا یدعون مع الله إلها آخر ولا یقتلون النفس التي حرم الله إلا بالخلق ولا یزنون ومن یفعل ذلك یلق أثاما} (الفرقان:68)

(صحیح البخاري ، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ:’’ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم‘‘، رقم الحدیث:6861،4؍265)

ترجمہ:

“حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی” اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑاہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو”، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی:(ترجمہ) “رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا”۔

3۔ “عن سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ قال ردّ رسول الله صلی الله علیہ وسلم علی عثمان بن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصینا”

ترجمہ:

“حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بے نکاحی زندگی گزارنے سے منع فرمادیا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیتے تو ہم اپنے آپ کو خصی بنالیتے”۔

(مشکوۃ:247)

4۔ قال العلامة شامي رحمه الله :

“ویکرہ أن تسقیٰ لإسقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یُتَصوَّرُ (الدرالمختار) وقال تحت قوله “وجاز لعذر” کالمرضعۃ إذا ظھر بھا الحبل وانقطع لبنها ولیس لأبي الصبي ما یستأجر به الظئر ویخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم، ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو وقدروا تلك المدۃ بمائة و عشرین یوماً، جاز لأنه لیس بآدمي وفیه صیانة الآدمي، خانیة۔ قوله:’’حیث لا یتصور‘‘ قید لقوله: ’’و جاز لعذر‘‘، والتصور کما في القنیة أن یظھر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذالك”.

(حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في الاستبراء و غیرہ،9؍615، دار عالم الکتاب)

5۔ وفی الھندیة:

“المرأة المرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين وهكذا في فتاوى قاضي خان”.

(الھندیة:5/354)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

25 صفر 1443ھ

2 اکتوبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں