فرشتوں سے متعلق عقائد

فرشتوں سے متعلق عقائد

قرآن واحادیث بلکہ کتب سابقہ بھی فرشتوں کے ذکر سے پُر ہیں۔ فرشتے نورانی مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ کے مکرم بندے ہیں۔ نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور لطیف جسم والے ہیں جس شکل میں چاہیں اللہ کے حکم سے ظاہر ہو سکتے ہیں کیونکہ بدن ان کے حق میں لباس کا حکم رکھتا ہے۔ کھانے پینے، لباس پہننے، زن ومرد اور توالدوتناسل سے پاک ہیں، بلکہ صفات بشریہ جیسے بغض، حسد، غضب ، تکبر،حرص اور ظلم وغیرہ سے بری ہیں۔ فرشتے اس کثرت سے ہیں کہ آسمان وزمین کی کوئی جگہ ان سے خالی نہیں ہے،ان کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ فرشتوں پر ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے اور ان کا انکار بلا شبہ کفر ہے۔قرآن کریم میں فرشتوں کی کئی صفات بیان کی گئی ہیں :مثلا

1-لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآاَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (سورہ تحریم:6) ’ترجمہ: فرشتے اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘معلوم ہوا کہ سب فرشتے گناہوں سے پاک ہیں۔

2- یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُمْ لَا یَسْأَمُوْنَ (سورہ فصلت:38) فرشتے ہروقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح وتہلیل میں مشغول رہتے ہیں کسی وقت بھی عبادت میں سستی نہیں کرتے۔

فرشتوں سے اللہ تعالیٰ نے سفارت کا کام لیا ہے۔ پیغمبروں پر حق تعالیٰ کی کتابیں اور صحیفے انہی کے ذریعے نازل ہوتے رہے۔ یہ ان کو نہایت امانت اور حفاظت سے پہنچانے والے ہیں اور خطا اور غلطی سے مامون اور محفوظ ہیں۔ فرشتوں نے جو کچھ حق تعالیٰ کی طرف سے پہنچایا ہے وہ سب حق اورصدق اور صواب ہے اس میں ذرہ برابر کسی غلطی کا احتمال اور اشتباہ نہیں۔

قرآن پاک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی یہ صفات بیان ہوئیں۔ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنِ۔ ’ترجمہ:’بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے، جو قوت والا ہے، جس کا عرش والے کے پاس بڑا رتبہ ہے، اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ امانت دار ہے۔

فرشتوں کی اقسام

آسمان اور زمین بلکہ تمام اجزاء عالم پر فرشتے مقرر ہیں۔ بحکم خداوندی اس کے مدبر اور نگہبان ہیں۔ ان میں سے بعض حاملین عرش ہیں اور بعض عرش کے گرد صف بستہ کھڑے ہیں اور بعض عرش کے طواف میں مشغول ہیں۔ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ (سورہ غافر:7) ’’ وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اس کے گرد موجود ہیں، وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔‘‘

بعض جنت کے خازن ہیں: حَتّٰی اِذَا جَآؤُ ھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمُٗ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ (سورہ زمر:73) ’’نیک لوگ جب جنت کے دروازوں پر پہنچیں گے تو اس کے محافظ ان سے کہیں گے کہ : سلام ہو آپ پر، خوب رہے آپ لوگ ! اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آ جائیے۔ ‘‘

بعض دوزخ کے خازن ہیں: حَتّٰی اِذَّا جَآ ئُ وْھَا فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلُٗ مِّنْکُمْ (سورہ زمر:71) ’’ جن لوگوں نے کفر اپنایا تھا انہیں جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں ہانکا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروزے کھولے جائیں گے اور اس کے محافظ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے۔‘‘

بعض قبض ارواح پر مقرر ہیں:قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ (سورہ سجدہ: 11) ’ کہہ دو کہ : تمہیں موت کا وہ فرشتہ پورا پورا وصول کرلے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔‘‘

بعض فرشتے انسانوں کو شیطان اور موذی چیزوں سے بچانے کے لئے مقرر ہیں۔ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ (سورہ رعد: 11) ’’ ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘

بعض فرشتے اعمال لکھنے پر مقرر ہیں: وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ (سورہ مطففین: 10-11) ’’ حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔‘‘

بعض قبر میں مردے سے سوال کرنے پرمقرر ہیں۔ ان کو منکر نکیر کہتے ہیں۔ بعض کواللہ نے ہوا سے متعلق کررکھا ہے اور بعض کو ابر سے اور بعض روزی پہنچانے پرمقرر ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا اور آخرت کے مختلف کاموںپر فرشتے مقرر ہیں۔

سب سے زیادہ مقرب چار فرشتے

1-حضرت جبرئیل علیہ السلام۔یہ انبیاء پر وحی لایا کرتے تھے اور وحی کا لانا اصلاًان کے سپرد تھا۔

2-حضرت میکائیل علیہ السلام جو اصلاً اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوق کی روزی پہنچانے پر مقرر ہیں۔

3-حضرت اسرافیل علیہ السلام جن کے سپرد قیامت کے دن صور پھونکناہے۔

4-حضرت عزرائیل علیہ السلام جو انسانوں کی روح قبض کرنے پرمقرر ہیں۔

جمہور علماء کے نزدیک حضرت جبرئیل امین سب سے افضل ہیں اور بعض احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ تنبیہ: فرشتوں سے محض غیرجاندار قدرتی قوتیں (Natural Forces) مراد لینا صحیح نہیں کیونکہ قرآن پاک میں ملائکہ (فرشتوں ) کے جو احوال ذکر ہیں ان سے ان کے جاندار مخلوق ہونے کا ہی علم ہوتا ہے۔مثلاً:

1- حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کی دعا مانگی: فَنَادَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنُ اللّٰہِ (سورہ آل عمران: 39) ’’ جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جو اس شان سے پیدا ہوں گے کہ اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کریں گے۔‘‘

2- اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جٰعِلِ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ(سورہ فاطر:1) تمام تعریفیں اللہ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، جس نے ان فرشتوں کو پیغام لے جانے کے لیے مقرر کیا ہے، جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں۔

3- قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَ۔ قَالُوْا اِنَّا اُرْسِلْنَا اِلٰی قَوْمٍ مُجْرِمِیْنَ لِنُرْسِلَ عَلَیْھِم حِجَارَۃً مِنْ طِیْنٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ (سورہ ذاریات:) ابراہیم نے کہا : اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو ! تم کس مہم پر ہو ؟ انہوں نے کہا : ہمیں کچھ مجرم لوگوں کے پاس بھیجا گیا ہے۔ تاکہ ہم ان پر پکی مٹی کے پتھر برسائیں۔ جن پر حد سے گزرے ہوئے لوگوں کے لیے تمہارے پروردگار کے پاس سے خاص نشان بھی لگا ہوگا۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں