حجر اسود کے پیچھے یا آگے سے طواف کا آغاز کرنا

السؤال: ایک آدمی نے مقام ابراہیم کو حجراسود سمجھ کر وہیں سے طواف عمرہ کیا اور وہیں ختم کیا اس کا طواف ہوایا نہیں  اب وہ حلق بھی کر اچکا ہے ؟ یہ ایک چکر نا قص شار ہو گا مل طواف ہو گیا؟

الجواب: باسم ربي الأكرم الذي علم بالقلم علم الإنسان ما لم يعلم

اس آدمی کا طواف مکمل ہو گیا اس پر کچھ لاگونہ ہو گا۔ نیز چو نکہ غالبا یہاں ان صاحب سے غلطی سے ہوا ہے تو امید ہے کہ اس طواف میں کراہت بھی نہ ہو گی۔ یہ حکم ہر قسم کے طواف کے لیے ہے خواہ وہ طواف زیارت ہو یا عمرے کا یا  نفلی  طواف۔

اس جواب کے حوالے سے علمی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔

اس بحث کا دار و مدار اس امر پر ہے کہ طواف میں، وہ طواف زیارت ہو یا طواف عمرہ یا نفلی، حجر اسود سے ابتدا کرنا فرض ہے، واجب ہے یا سنت؟

١:اگر فرض قرار دیا جائے، تو نہ صرف یہ کہ اس بندے کا طواف ناقص، بلکہ اس کی سعی بھی قابل اعتبار نہیں اور یہ بند ه احرام سے بھی باہر نہیں آیا۔

 ۲: البتہ اگر اسے واجب قرار دیا جائے، تو اس کا فرض طواف ادا ہو گیا، نیز اس کی سعی بھی درست اور یہ احرام سے بھی باہر آ گیا، لیکن چونکہ اس نے واجب چھوڑا ہے (واجب چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا آخری پھیر اناقص ہے اور عمرے وحج کے طواف میں ایک پھیرے سے کم چھوڑنا بھی واجب کا چھوڑنا ہے اس لیے آیا  اتنا حصے کو لوٹالے یادم دے۔ اور یہی ابن ہمام رحمہ الله تعالى کی رائے ہے۔

٣ : لیکن اگر اسے سنت قرار دیا جائے، جس کی اساس پر اوپر جواب دیا گیا ہے، تو اس کا عمرہ درست اور اس پر کچھ بھی لاگو نہ ہو گا۔ البتہ کراہت تنزیہی ہے اگر بغیر سیکھے عمرے کے لیے آ گیا جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کیا۔

چناچہ اس حوالے سے احناف کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے، اسے فرض، واجب اور سنت سب کچھ قرار دیا گیا ہے۔

 ابن ہمام رحمہ  الله تعالی کا جھکاو اس طرف ہے کہ یہ واجب ہے اور ملا علی قاری رحمہ  الله تعالی کا بھی۔ لیکن ظاہر الروایہ احناف کی یہی ہے کہ یہ سنت ہے۔ بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی نے بھی اسے  ہی راجح قرار دیا ہے۔ لباب میں بھی اس رائے کو درست قرار دیا گیا ہے کہ یہ سنت ہے۔ نیز ہمارے متون میں بھی اسے واجب نہیں قرار دیا گیا۔ اس لیے یہاں ظاہر الروایہ سے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں۔

اس مقام کو سب سے بہترین علامہ کا سانی ہی نے حل فرمایا ہے ۔ وہ صاف فرماتے ہیں کہ حجرہ اسود سے آغاز کرنا سنت ہے اور اگر کسی نے اس کے آگے سے یا پیچھے سے آغاز کیا تو اس کا طواف در ست ہو جائے گا۔ یہاں واضح رہے کہ ان کی یہ مراد نہیں۔ جیسا کہ علامہ سرخسی کی عبارت سے تاثر ملتاہے۔ کہ درست ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ حجر اسود پر پہنچے گا، تو اس کا طواف شروع ہو جائے گا، کیونکہ یہ معاملہ اس روایت کے مطابق ہے جس پر حجر اسود سے ابتدا واجب ہے اور نوادر کی روایت ہے اور قیادت میں مذکور ہے۔ چناچہ اس میں تصریح  موجود ہے کہ اگر اس نے حجر اسود کے پیچھے سے آغاز کیا، تو اس کے طواف کا آغاز اس وقت ہو گا جب وہ حجر اسود کو پہنچے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اگر اس کے بعد اسے احساس ہو گیا کہ اس نے پیچھے سے آغاز کیا ہے اور اس نے ساتواں پھیر احجراسود تک پورا کیا تو اس کا طواف دونوں روایتوں پر درست ہو جائے گا۔ اس لیے طواف کا آغاز حجر اسود سے سنت ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اگر اس کے پیچھے سے یا اس کے آگے سے آغاز کیا، تو پہلی بار حجر اسود تک پہنچنے سے پہلے تک کی مسافت طواف میں شمار ہو گی، کالعد م نہ ہو گی۔

علامہ سرخسی رحمہ اللہ تعالی نے جہاں اس پر بحث فرمائی ہے کہ اگر کسی نے حطیم کے اندر سے سار اطواف کیا، وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ نوا در کی روایت تسلیم فرمارہے ہیں، لیکن غالبا ایسا  نہیں ہے کیو نکہ اس امر پر کہ “طواف میں ترتیب سنت ہے “نوا در کی روایت سے اشکال ہوتا تھا۔ اس لیے، علامہ سرخسی اس روایت کو درست فرض کر کے اس کی وجہ ذکر کر رہے ہیں تاکہ یہ اصول ” طواف میں ترتیب سنت ہے “نہ ٹوٹے۔ بہر کیف، اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ علامہ سرخسی کا جھکا و نوادر کی روایت کی طرف ہے تب بھی ظاہر الروایہ سے ہٹنے کی وجہ نہیں اور علامہ کاسانی نے اسے ہی راجح قرار دیا ہے، نیز انہوں نے بڑے لطیف انداز میں جس حدیث سے (اگروہ ثابت ہے )انوار د کی روایات کے لیے استدلال کیا گیا ہے، یہ کہتے ہوئے اشارہ فرمایا ہے کہ : “اس حدیث سے فرضیت بھی ثابت ہو سکتی ہے اور سنیت بھی “(والدليل على أن الافتتاح من الحجر إما على وجه السنة أو الفرض)۔

 پس نوشت: یہاں یہ واضح رہے کہ حج اور عمرے کے طواف میں ایک پھیرایا اس سے کم چھوڑنے پر اسے بجالانا واجب ہے ور نہ دم لا گو ہو گا۔ اس لیے اس مسئلے کو فقہ حنفی کی روشنی میں، اس طرح حل نہیں کیا جا سکتا کہ ایک پھیرے کا چوتھائی حصہ چھوٹا ہے اس لیے کچھ صدقہ دے دیا جائے کیونکہ یہ بات نفلی یا مسنون طواف میں ہے۔ حج و عمرے میں یہ معاملہ نہیں جہاں طواف ر کن ہے۔

– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

في رد المحتار، کتاب الحج، فصل في الإحرام وصفة المفرد، تحت قول الدر المختار: ” فاستقبل (الحجر مكبرا هللا رافعا يديه) …”:

وأما الابتداء من غيره فهو حرام أو مكروه تحريما أو تنزیها بناء على الأقوال عندنا من أن الابتداء بالحجر فرض أو واجب أو سنة

في المسلك المتقط في المنسك المتوسط على الباب المناسك للشيخ الإمام السندي، لمصنفه ملا علي القاري الهروي، فصل في شرائط صحة الطواف:

وإتيان اكثره) لأنه مقدار الفرض منه، والباقي واجب فيه، وفي عده شرطا مسامحة له إذ هو ركن أيضا (وفيل والابتداء من الحجر ) أي عد من شرائط صحة الطواف، ففي شرح المنار للكاكي والمطلب الفائق لشرح كنز الدقائق أن الابتداء من الحجر الأسود شرط على الأصح لكن الأكثر على أنه ليس بشرط، بل هو سنة في ظاهر الرواية، ويكره ترکها وعليه عامة المشايخ. ونص محمد في الرقيات على أنه لايجزيه أي الافتتاح من غيره .

والحاصل أنه (أي أبن هيام في فتح القدير) أختار الوجوب، وبه صرح في المنهاج نقلا عن الذخيرة حيث قال في عد الواجبات: “والبداية بالحجر الأسود وهو الأشبه والأعدل فينبغي أن يكون هو المعول”

وفيه في “فصل في سن الطواف”:

والابتداء من الحجر ) أي ابتداء الطواف منه أعم من أن يكون باستلام أو استقبال أم لا، سنة (هو الصحيح) أي خلافا لمن قال: إنه شرط، أو فرض، أو واجب کا اختاره ابن الهمام، وهو باعتبار الدليل أظهر ، وإن كان الأول عليه الاكثر.

في المبسوط للسرخسي، کتاب المناسك، باب الطواف:

ويلزمون علينا بما لو ابتدأ الطواف من غير موضع الحجر لا يعتد بذلك القدر حتى ينتهي إلى الحجر، ولو لم يكن الترتيب وأجبا لكان ذلك القدر معتاد به، ومن أصحابنا من يقول بأنه معتاد به عندنا ، ولكنه مكروه، ولكن ذكر محمد – رحمہ  الله تعالى – في الرقيات أنه لا يعتبر طوافه إلى الحجر لا الترك الترتيب ولكن لأن مفتاح الطواف من الحجر الأسود على ما روي أن إبراهيم – صلوات الله وسلامه عليه – قال الإسماعيل – عليه السلام – ائتني بحجر أجعله علامة افتتاح الطواف فأتاه بحجر فألقاه ثم بالثاني ثم بالثالث فناداه قد أتاني بالحجر من أغناني عن حجرك، ووجد الحجر الأسود في موضعه فعرفنا أن افتتاح الطواف منه فما أداه قبل الافتتاح لا يكون معتاد به .

٤: في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الحج، فصل شرط وواجبات طواف الزيارة

فأما الابتداء من الحجر الأسود فليس بشرط من شرائط جوازه بل هو سنة في ظاهر الرواية حتى لو افتتح من غير عذر أجزأه مع الكراهة لقوله تعالى أوليطوفوا بالبيت العتيق } [الحج: 29] مطلقا عن شرط الابتداء بالحجر الأسود إلا أنه لو لم يبدأ يكره؛ لأنه ترك السنة، وذكر محمد – رحمہ  الله – في الرقيات إذا افتتح الطواف من غير الحجر لم يعتد بذلك الشوط إلا أن يصير إلى الحجر فيبدأ منه الطواف فهذا يدل على أن الافتتاح منه شرط الجواز، وبه أخذ الشافعي، والدليل على أن الافتتاح من الحجر إما على وجه السنة أو الفرض ما روي أن إبراهيم – صلى الله عليه وسلم – لما انتهى في البناء إلى مكان الحجر قال الإسماعيل – عليه الصلاة والسلام – ائتني بحجر أجعله علامة الابتداء الطواف خرج، وجاء بحجر فقال ائتني بغيره فأتاه بحجر آخر فقال ائتني بغيره فأتاه بثالث فألقاه، وقال جاءني بحجر من أغناني عن حجرك فرأى الحجر الأسود في موضعه.

۵: في المبسوط للسرخسي، كتاب المناسك، باب الطواف

 (قال) واذا طاف الطواف الواجب في الحج والعمرة في جوف الحطيم قضى ما ترك منه إن كان بمكة، وإن كان رجع إلى أهله فعلیه دم؛ لأن المتروك هو الأقل فإنه إنما ترك الطواف على الحطيم فقط، وقد بينا أنه لو ترك الأقل من أشواط الطواف فعليه إعادة المتروك ، وإن لم يعد فعليه الدم عندنا فهذا مثله –

في المسلك المتقط في المنسك المتوسط على الباب المناسك للشيخ الإمام السندي، لمصنفة ملا علي القاري الهروي، فصل في الجناية في طواف العمرة:

وكذا لو ترك منه) أي من طواف العمرة (أقله ولو شوطا فعليه دم ) وهذا تصریح بما علم تلویحا (وإن أعاده) أي الأقل منه (سقط عنه الدم ولو ترك كله أو أكثره فعليه أن يطوفه حتما) أي وجوبا أو فرضا (ولايجزئ عنه البدل أصلا) لأنه ركن العمرة والله أعلم

كتبه

مشرف بیگ اشرف

الجامعة الفاروقيه ، جي تيره  (G-13)

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/662966157405966/

اپنا تبصرہ بھیجیں