حالات حضرت حزقیل  علیہ السلام

تحریر: حفصہ بدر

 حضرت  موسیٰ  ؑ اور حضرت ہارون  ؒ کے  بعد بالاتفاق تو رات  وتاریخ حضرت یوشع  علیہ السلام  منصب نبوت پر فائز تھے ،ا ن کے  بعد ان کی جانشینی کا حق حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے دوسرے  رفیق کا لب بن یوقنا نے ادا کیا،  یہ حضرت  موسیٰ ؑ کی ہمشیرہ  مریم بنت  عمران کے شوہر تھے  مگر نبی نہیں تھے ( قصص القرآن ) 

 طبری کہتے ہیں کہ ان کے بعد   سب سے پہلے  جس ہستی  نے بنی اسرائیل  کی روحانی  اور دنیوی  قیادت  وراہنمائی کا فریضہ  انجام دیا وہ حضرت حزقیل علیہ السلام ہیں ۔

 قرآن عزیز  میں آپ کا نام مذکور نہیں ، لیکن  سورۃ البقرۃ  میں بیان کردہ  ایک واقعہ  سلف صالحین  سے جوروایات  منقول ہیں ،ا ن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق آپ علیہ السلام  کے ساتھ  ہے ،

سلسلہ نسب  :

 تورات  میں ہے کہ آپ علیہ السلام  کے والد بوزی تھا ، آپ ؑ کا نام  حزقی ایل ہے عبرانی زبان میں اہل اسم حالات ہےا ور حزفی کے معنی قدرت  اور قوت کے ہیں ، عربی زبان میں آپ ؑ کے نام کا ترجمہ  ” قدرت اللہ ” ہوا۔

آپ علیہ السلام  کے ولاد ماجد کا انتقال آپ ؑ کے بچپن  میں ہوگیاتھا ، آپ علیہ السلام  کے زمانہ بعثت  کے وقت  آپ علیہ السلام  کے والدہ  ماجدہ ضعیف  ہوچکی تھیں ،اس لیے آپ علیہ السلام  اسرائیلیوں  میں  ” ابن العجوز” یعنی  بڑھیا کا بیٹا” مشہورتھے ۔ ( قصص القرآن )

 کتب تفسیر  میں یہ روایت   حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  اور دوسرے بعض  صحابہ اکرام  رضی اللہ عنہ  سے منقول  ہے کہ بنی اسرائیل  کی ایک  بہت بڑی  جماعت  سے یا ان کے بادشاہ  سے جب ان کے پیغمبر  حضرت حزقیل  علیہ السلام  نے کہا فلاں  دشمن سے جنگ کرنے کے لیے  تیار ہوجاؤ اور اعلائے  کلمہ اللہ کا فرض ادا کرو تو وہ اپنی جانوں  کے خوف  سے  بھاگ  کھڑے  ہوئے  اور یہ  یقین  کرکے کہ اب جہاد  سے بچ کر  موت سے محفوظ  ہوگئے ہں ،ا ب  یا تو پیغمبر  نے ان کی اس حر کت   پر ان کے یے بددعا کی ، یا اللہ  تعالیٰ کو خود ان کی یہ بات پسند نہ آئی ، بہرحال  اللہ تعالیٰ کے غضب  نے ان پر موت طاری   کردی  اور سب کے سب موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ (قصص القرآن )

“موت  کے بعد دوبارہ زندہ ہونا “

 قرآن مجید میں یہ واقعہ  درج ذیل آیت میں ہے ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٢٤٣﴾

ترجمہ :  کیاآپ  نے ان  لوگوں  کے واقعہ  کو ملاحظہ  نہیں کای جو موت  کے ڈر سے  اپنے گھر وں سے نکل گئے  تھے ، حالانکہ  وہ ہزاروں تھے سو اللہ نے ان کو حکم  کہ مرجاؤ،   پھر خدا نے ان کو زندہ  کردیا، بے شک  اللہ لوگوں  پر بڑا فضل  فرماتا ہے حالانکہ  بہت لوگ  شکر ادا  نہیں کرتے ۔

اس آیت سے یہ بھی واضح  ہوگیاکہ کہ موت  اور حیات  اللہ کے  تابع ہے  جنگ و جہاد میں جانا موت کا سبب نہیں اور بزدلی سے  جی چرانا  موت  سے بچنے کا ذریعہ بنیں ۔

 ابن کثیر میں  سلف صالحین  کے حوالے سے  اس واقعہ کی تشریح  یہ بیان کی گئی ہے  کہ بنی اسرائیل  کی کوئی جماعت  ایک شہر  میں بستی تھی  اور وہاں   طاعون   وغیرہ   پھیل گیاتھا ۔ یہ لوگ دس ہزار  کی تعداد  میں تھے ،سب کے سب  دو پہاڑوں کے درمیان  وسیع میدان  میں مقیم ہوگئے ، اللہ تعالیٰ نے ان پر  اور دنیا کی دوسری  قوموں  پر واضح  کرنے کے لیے   کہ موت   سے کوئی شخص بھاگ  کے جان  نہیں چھڑاسکتا ، دو فرشتے   بھیجے  جو میدان کے دونوں  سروں  پر آکھڑے  ہوگئے اور ایک آواز  دی جس سے سب کے سب بیک  وقت مرگئے ، آس پا س  کے لوگوں  کو جب اس کی اطلا ع ہوئی تو وہ آئے  لیکن دس ہزار  انسانوں کا  کفن دفن  کا انتظا م اتنا  آسان نہیں تھا،  اس لیے  ایک احاطہ  کھینچ کر  خطیر جیسا بنادیا ۔ا ب کی لاشیں  حسب دستور  گل سڑ گئیں  اور ہڈیاں رہ گئیں ، زمانہ دارز کے بعدبنی اسرائیل   کے پیغمبر  حضرت  حزقیل علیہ السلام کا  ان پر  گزر ہوا، آپ  علیہ السلام   انسانی ڈھانچوں   کے انبار  کو دیکھ کر  حیرت زدہ  رہ گئے  ، بذریعہ وحی  ان لوگوں  کا پورا واقعہ   آپ کو بتادیاگیا ، آپ  علیہ السلام  نے ان کے دونارہ زندہ  ہونے کی دعافرمائی  ، اللہ نے دعاقبول  فرمائی اور حکم دیا کہ ان  شکستہ  ہڈیوں کو اس طرح خطاب  فرمائیں  :

 اَيُّهَا الْعِظَامُ الْبَالَيَهْ اَنَّ اللهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَجْتَمِعىْ”

 ترجمہ : اے پرانی ہڈیو! اللہ تمہیں حکم  دیتا ہے  کہ ہر جوڑ  کی ہڈی  اپنی اپنی  جگہ جمع ہوجائے ۔”

پیغمبر کی زبان  سے خداتعالیٰ  کا حکم ان ہڈیوں  نے سنا اور حکم  کی تعمیل کی پھر حکم  ہوا کہ اب ان کو یہ آواز دو۔

اَيُّهاالْعِظَامُ اِنَّ اللهَ اَنْ تَكْتَسِى لَحْمًا وَّعَصَماً وَّجَلَداً

  ” ترجمہ :  ای ہڈیو! اللہ  تعالیٰ تمہیں  حکم  دیتا ہے  کہ اپنا گوشت   پہن لو اور پٹھے  اور کھال درست کرلو ۔

یہ کہنا تھا کہ ہڈیوں  کا  ہر ڈھانچہ  ان کے دیکھتے ہی د یکھتے   ایک مکمل لاش بن گئی  پھر یہ حکم ہوا  کہ اب ارواح کو یہ خطاب  کیاجائے ۔

“اَيُّهاالْارْوَاحُ اِنَّ اللهَ يَامُرُكُمْ اَنْ تُرْجِعِ كُلُّ رُوْحٍ اٍلىَ الْجَسَدِ الَّذَى كاَنَت تَعْمُرُه،”

ترجمہ :  اے ارواح  ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنے بدنوں میں لوٹ آؤ، جن کی تعمیر وحیات  سے چاروں   طرف دیکھتے   ہیں ان سے وابستہ  تھی ۔

یہ آواز دیتے ہین  سارے لاشے  ان کے سامنے  زندہ ہوکر  کھڑے  ہوگئے اور  حیرت سے چاروں طرف  دیکھنے لگے  سب کی زبانوں   پر تھا سبحٰنک  لاالہ الاانت  ( معارف القرآن )

 ابن  کثیر  میں ہے کہ  یہ بنی اسرائیل  کی جماعت   کی جماعت  “دادرواں ”  کی باشندہ تھی جو ” شہروسطہ ”  سے چند کوس پرا س زمانہ کی مشہور  آنادی تھی  اور یہ فرار   ہوکر  ” انیچ ”  کی وادی میں چلے گئے  تھے تو ان کے ساتھ مندرجہ بالا واقعہ پیش آیا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں