فتویٰ نمبر:761
سوال:
۱ دورانِ حیض شوہر ،بیوی کے پاس جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر جاسکتا ہے تو کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟
۲ ایک صاحب کا استدلال ہےکہ عورت کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوجاتی ہے تو حیض کا آنا بند ہوجاتا ہے اور ایسی صورت میں مرد کا بیوی کے پاس جانا اس سے تعلقات رکھنا کسی بھی قسم کا جائز نہیں ہے ۔
چنانچہ اسی استدلال کے تحت ان صاحب نے اپنی اہلیہ سے (جن کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے اور وہ صاحب اپنی اہلیہ سے عمر میں بڑے ہیں ) ملنا ان کےساتھ رہنا اور ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کیا ہوا ہے کیا ان صاحب کا یہ عمل جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں ہے تو وضاحت سے مستفید فرمائیں ۔
الجواب حامداً ومصلیاً
۱ ماہواری کے دنوں میں عورت کی ناف کے نیچے سے گٹھنے کے نیچے تک شوہر کیلئے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا ہاتھ لگانا دیکھنا وغیرہ جائز نہیں بقیہ جسم سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے ۔
جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
(۱) الفتاوى الهندية – (1 / 39)
(وَمِنْهَا) حُرْمَةُ الْجِمَاعِ….. وَلَهُ أَنْ يُقَبِّلَهَا وَيُضَاجِعَهَا وَيَسْتَمْتِعَ بِجَمِيعِ بَدَنِهَا مَا خَلَا مَا بَيْنَ السُّرَّةِ وَالرُّكْبَةِ
۲۔۔۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ} [المؤمنون : 5 ، 6]
ترجمہ: (بالتحقیق ان مسلمانوں نے فلاح پائی)جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے ۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے میاں بیوی کو ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی مطلقاً اجازت دی ہے چاہے وہ عمر رسیدہ ہوں یا کم عمر(۲) ۔
نیز نبی کریم ﷺ کا عمل جوکہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اس مذکورہ نظریہ کی تردید کرتا ہے ۔
آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے اس وقت شادی فرمائی جبکہ وہ چالیس برس کی تھیں اور وہ پچیس برس تک آپکے نکاح میں رہیں وفات کے وقت انکی عمر پینسٹھ برس تھی ۔
آپکی وفات ہجرت سے تین سال قبل ہوئی اور آپکے بطن سے چار صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے پیدا ہوئے ۔
امام کلبی ؒفرماتے ہیں :حضرت عبداللہ (جنکو طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے ) سب سے آخر میں پیدا ہوئے اور انکی ولادت زمانۂ اسلام میں ہوئی ۔
اس پوری تفصیل سے یہ اندازہ بسہولت لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے حضرت خدیجہ ؓسے جو آخری صاحبزادے ہوئے اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر پچاس سال سے اوپر تھی ۔
(تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو اسد الغابۃ۶/ ۸۱تا۸۵
لہذا مذکورہ شخص کا یہ طریقہ کار شرعاً اخلاقاً ہر طرح سے قابلِ مذمت ہے ۔
اور اسطرح سے قطع تعلق کرلینا بیوی کی حق تلفی کے زمرے میں آئیگا جو کہ سخت گناہ ہے
سنن أبى داود-ن – (2 / 210)
عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِىِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ قَالَ « أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ – أَوِ اكْتَسَبْتَ – وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلاَ تُقَبِّحْ وَلاَ تَهْجُرْ إِلاَّ فِى الْبَيْتِ ». (مشکوٰۃ ص:۲۸۱ ج:۲)۔۔۔۔۔فقط
التخريج
(۱)الجوهرة النيرة-أبو بكر بن علي بن محمد الحدادي – (1 / 117)
وَلَهُ أَنْ يُقَبِّلَهَا وَيُضَاجِعَهَا وَيَسْتَمْتِعَ بِجَمِيعِ بَدَنِهَا مَا خَلَا مَا بَيْنَ السُّرَّةِ وَالرُّكْبَةِ
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح – (1 / 96)
( والإستمتاع بما تحت السرة ) أما السرة وما فوقها فيحل الإستمتاع به بوطء أو غيره ولو بلا حائل وكذا بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما والمحرم هو المباشرة
(۲)الفتاوى الهندية – (1 / 287)
لَا عِبْرَةَ لِلسِّنِّ فِي هَذَا الْبَابِ وَإِنَّمَا الْعِبْرَةُ لِلطَّاقَةِ إنْ كَانَتْ ضَخْمَةً سَمِينَةً تُطِيقُ الرِّجَالَ وَلَا يُخَافُ عَلَيْهَا الْمَرَضُ مِنْ ذَلِكَ؛ كَانَ لِلزَّوْجِ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، وَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ تِسْعَ سِنِينَ، وَإِنْ كَانَتْ نَحِيفَةً مَهْزُولَةً لَا تُطِيقُ الْجِمَاعَ وَيُخَافُ عَلَيْهَا الْمَرَضُ لَا يَحِلُّ لِلزَّوْجِ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، وَإِنْ كَبُرَ سِنُّهَا وَهُوَ الصَّحِيحُ
المعجم الكبير – (19 / 425)
عن حكيم بن معاوية عن أبيه قال : قلت يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه ؟ قال : ( يطعمها إذا طعم ويكسوها إذا اكتسى ولا يضرب الوجه ولا يهجرها إلا في البيت )
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي – (7 / 305)
عن حكيم بن معاوية القشيرى عن أبيه قال قلت : يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه قال :« أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا فى البيت.