حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

تحریر :حضرت مولونا خلیق احمد مفتی صاحب

فتحِ مدائن

فتحِ قادسیہ کے بعدکچھ عرصہ وہاں انتظامی اموراوردیگرمختلف معاملات کی ترتیب وتنظیم میں گذرگیا،اس کے بعدسپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطابؓ سے سلطنتِ فارس کے علاقوں میں مزیدپیش قدمی کی اجازت طلب کی،چنانچہ خلیفۂ وقت کی طرف سے اجازت ملنے پراسلامی لشکرنے مزیدپیش قدمی کاسلسلہ شروع کیا،چھوٹے بڑے مختلف علاقے ، بستیاں ، اورشہر ، یکے بعددیگرے فتح ہوتے چلے گئے۔

آخر سن سولہ ہجری میں ایک دن ایسابھی آیاکہ جب حضرت سعدبن ابی وقاصؓ روئے زمین کی عظیم ترین قوت ’’سلطنتِ فارس‘‘کے دارالحکومت اوراُس دورکے انتہائی عظیم الشان اورپرشکوہ شہر’’مدائن‘‘کی فصیل کے سامنے کھڑے تھے،ہزاروں میل دورمکہ کے گلی کوچوں میں کھیل کودکرجوان ہونے والایہ انسان، مکہ میں اپنی ماں کی بھوک ہڑتال کے صدمے برداشت کرنے والایہ شخص،بدرکے میدان میں اپنے چھوٹے اوربہت ہی لاڈلے بھائی کوخوداپنے ہی ہاتھوں سپردِخاک کردینے کے انتہائی تکلیف دہ مرحلے سے گذرنے والایہ شخص،اُحدکے میدان میں دن بھرتیرچلاچلا کر ہلکان ہوجانے والایہ شخص،آج ایک عظیم ترین کارنامہ انجام دینے کی غرض سے، ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی غرض سے،قدرت نے اسے یہاں ’’مدائن‘‘کی فصیل کے سامنے لا کھڑاکیاتھا،آج وہ یہاںاپنی آنکھوں سے عجیب وغریب مناظرکامشاہدہ کررہاتھا،گذشتہ ایک ہزارسال سے مسلسل انتہائی مطلق العنانی اوربڑے ہی جاہ وجلال کے ساتھ فارس پرحکمرانی کرنے والے ’’ساسانی‘‘خاندان کی ترقی و عروج ، شان وشوکت ، یہ سب کچھ سمٹ کراس تاریخی شہرمدائن میں اپنی تمام تررونقوں اوررعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروزتھا،حدِنگاہ تک آنکھوں کوخیرہ کردینے والے شاہی محلات کاایک عجیب وغریب سلسلہ تھا،جن کے درودیوارسے صدیوں کی شان وشوکت جھلک رہی تھی، ساسانی خاندان سے تعلق رکھنے والے فارسی ’’شہنشاہوں‘‘ کارعب اوردبدبہ جھانک رہاتھا۔

انہی عظیم الشان شاہی محلات میں ایک محل وہ بھی تھا کہ جہاں محض دس سال قبل ، انتہائی غروروتکبراوربداخلاقی وبدمزاجی کامظاہرہ کرتے ہوئے کسریٰ خسروپرویزنے رسول اللہ ﷺکانامۂ مبارک محض اس لئے چاک کر ڈالا تھا،اور پرزے پرزے کرکے پھینک دیاتھاکہ اس میں سب سے اوپراللہ عزوجل کانام تحریرتھا، کسریٰ یہ چیزبرداشت نہیں کرسکا تھا کہ اللہ کانام اوپر،اورکسریٰ کانام نیچے تحریر کیا گیا تھا ۔

حضرت سعدبن ابی وقاصؓ وہاں مدائن شہرکی فصیل کے سامنے کھڑے ہوئے ان شاہی محلات اورنظروں کوخیرہ کردینے والی ان عمارات کی جانب دیکھتے رہے ، اور تب وہ بے اختیار تصورکی دنیامیں کھوگئے،آج سے تیرہ سال قبل کاوہ منظرنگاہوں کے سامنے گھومنے لگا، جب ’’خندق‘‘کھودتے وقت ایک سخت چٹان کسی سے ٹوٹ نہیں رہی تھی ، تب خودرسول اللہﷺنے اس پر ایک ضرب لگائی تھی،جس سے وہ چٹان پاش پاش ہوگئی تھی، اورتب فاصلے سمیٹ دئیے گئے تھے،رسول اللہﷺکی نگاہیں کسی جانب ٹک کررہ گئی تھیں ، لوگوں نے جب حیرت سے اُس جانب دیکھاتوانہیں کچھ نظرنہیں آیاتھا ، البتہ اُس موقع پراللہ عزوجل کی قدرت سے رسول اللہﷺکووہاں مدینہ سے ہزاروں میل کی مسافت پرواقع سلطنتِ فارس کے عظیم بادشاہوں اورتاجداروں کے انہی عظیم الشان محلات کامشاہدہ کرایاگیاتھا،گویااللہ کی طرف سے یہ بشارت تھی کہ ’’اے ہمارے نبی! آپ نے یہ جواپنی کدال سے اس چٹان پر ضرب لگائی ہے ،اس کے نتیجے میں محض یہی چٹان ہی نہیں ٹوٹی،بلکہ آپ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیجئے،بہت جلدروئے زمین کی اس عظیم ترین قوت کے ان عظیم بادشاہوں اورتاجداروں کے یہ بڑے بڑے عالیشان محلات، اوران کی یہ پرشکوہ عمارات آپ کی امت کے قدموں میں ہوں گی‘‘۔

پھراسلامی لشکرکی طرف سے یلغارہوئی،اعصاب شکن جنگ کی نوبت آئی، آخرسلطنتِ فارس کایہ دارالخلافہ اورتاریخی شہر’’مدائن‘‘مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا، شہرمیں داخل ہونے اورپھروہاں اپناقبضہ مستحکم کرلینے کے بعد سپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے سب سے پہلے اپنے سپاہیوں اورلشکریوں سمیت وہاں ’’نمازِشکر‘‘ ادا کی ۔

اس تاریخی شہرکی فتح کے بعدوہاں صدیوں سے سلطنتِ فارس پرراج کرنے والے بڑے بڑے نامی گرامی بادشاہوں اورتاجداروں کے وہ بیش قیمت خزانے، کسریٰ کاتاج ، اس کی پوشاک ،اوربے حدوحساب قیمتی ترین جواہرات ونوادرات ،یہ سب کچھ بہت بڑی مقدار میں بطورِغنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔

جب اتنی بڑی مقدارمیں یہ قیمتی ترین خزانے ، سوناچاندی ، زیورات وجواہرات ، کسریٰ کا تاج ،اس کے کنگن ،اس کی پوشاک ، شاہی خاندان کے نوادرات،اوربھی بہت کچھ،یہ تمام چیزیں حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے مسلمانوں کے دارالخلافہ یعنی مدینہ منورہ میں خلیفۃ المسلمین حضرت عمربن خطابؓ کوبھجوائیں، تاکہ وہاں اسلامی بیت المال میں یہ سب کچھ جمع کردیاجائے،چنانچہ یہ مالِ غنیمت جب مدینہ پہنچا،حضرت عمرؓ نیزدیگراکابرصحابہ ٔ کرام نے جب یہ منظردیکھا،توانہیں اپنی آنکھوں پریقین نہیں آرہا تھا ، اورتب ان سب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اوربڑی ہی خوشگوارحیرت کااظہارکرتے ہوئے حضرت عمربن خطابؓ نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اوران کے ساتھیوں کے بارے میں یہ تاریخی کلمات کہے: اِنَّ قَوماً أرسَلُوا ھٰذا لَذُو أَمَانَۃٍ ’’وہ لوگ جنہوں نے یہ سب کچھ یہاں ہماری طرف بھیج دیاہے…وہ تویقینابڑے ہی امانتدارہیں۔‘‘

اتفاقاًاُس وقت حضرت عمربن خطابؓ کے قریب ہی حضرت علی بن ابی طالبؓ بھی کھڑے ہوئے تھے،انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی زبانی جب حضرت سعدبن ابی وقاصؓ اوران کے ساتھیوں کے بارے میں یہ تعریفی کلمات سنے تو اس پرتبصرہ کرتے ہوئے برجستہ نہایت ہی قیمتی اورآبِ زرسے لکھے جانے کے قابل یہ الفاظ کہے: یَا أَمِیرَ المُؤمِنِین! اِنَّکَ عَفَفْتَ، فَعَفَّتْ رَعِیَّتُکَ’’اے امیرالمؤمنین!چونکہ آپ خودامانتدارہیں ، لہٰذا آپ کی رعیت بھی امانتدارہے۔

کسریٰ کے کنگن حضرت سُراقہ کے ہاتھوں میں

ملکِ فارس سے آئے ہوئے ان بیش قیمت خزانوں اور نوادرات وجواہرات میں وہاں کے بادشاہ’’کسریٰ ‘‘کے قیمتی ترین کنگن بھی موجودتھے۔خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ کی نظرجب ان پرپڑی توانہوں نے فوراًسُراقہ بن مالک کوبلوایا،اورخوداپنے ہاتھوں سے یہ بیش قیمت کنگن اسے پہنائے،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ جب ہجرتِ مدینہ کے لیے چپکے سے نکلے تھے،اس موقع پرمشرکینِ مکہ کی طرف سے اعلان کردہ بڑے انعام کے لالچ میں سُراقہ بن مالک المدلجی جب تعاقب کرتاہوارسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بالکل قریب آپہنچاتھا،تب اس کے گھوڑے نے اچانک ٹھوکرکھائی،اوروہ آپﷺ کی حقانیت وصداقت کو پہچان چکاتھا،اُس موقع پرآپﷺنے اسے مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ ارشادفرمائے تھے کہ’’سُراقہ!اُس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہوں گے؟‘‘چنانچہ حضرت عمرؓ نے نبی کریم ﷺ کے اسی ارشاد پر عمل کرتے ہوئے وہ کنگن حضرت سراقہ کو پہنائے۔

کوفہ شہرکی بنیاد

حضرت سعدبن ابی وقاصؓ جب سلطنتِ فارس کادارالحکومت ’’مدائن‘‘فتح کرچکے اوروہاں مسلمانوں کاقبضہ خوب مستحکم ہوچکا،تب خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطابؓ نے انہیں یہ پیغام بھیجاکہ مدائن فتح ہوجانے کے بعداسے اپنامستقل مرکزنہ بنایاجائے،بلکہ اس مقصدکیلئے کسی مناسب جگہ کاانتخاب کرکے وہاں ایک نیاشہربسایا جائے۔چنانچہ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سپہ سالارِاعلیٰ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے اپنے چندمعاونین کے ہمراہ مناسب مقام کی تلاش شروع کی،اوراس مقصدکیلئے کافی تگ ودواورغوروفکرکاسلسلہ چلتارہا،آخران حضرات کودریائے فرات کے کنارے ایک جگہ کافی پسندآئی،اورپھرانہوں نے ( ۱۷ھ؁ میں)وہاں نیاشہرآبادکیا،جسے بہت بڑی فوجی چھاؤنی ہونے کے علاوہ ایک جدیداورخوب ترقی یافتہ شہرکی حیثیت سے دیکھاجانے لگا،اس نئے شہرکانام’’کوفہ‘‘تھا ۔ نیابسایاگیایہ شہر’’کوفہ‘‘اپنی جغرافیائی اہمیت کے ساتھ ساتھ بہت جلددینی ، علمی ، ادبی ، وسیاسی غرضیکہ ہرلحاظ سے بہت زیاد ہ اہمیت اختیارکرگیا۔

حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے یہ نیاشہر’’کوفہ‘‘بسانے کے بعد خودبھی اسی میں مستقل رہائش اختیارکرلی،چنانچہ انہوں نے وہاں کافی عرصہ گذارا،لیکن آخروہ وہاں سے واپس مدینہ چلے آئے،اورزندگی کایہ سفراسی طرح جاری رہا۔

مدینہ واپسی کے بعدبھی انہیں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا،’’فاتحِ ایران‘‘ نیز ’’جنگِ قادسیہ‘‘کے یہ ہیرو,اب ہمیشہ کیلئے تاریخِ اسلام کے عظیم ترین ہیروکی حیثیت اختیارکرچکے تھے,اللہ رب العزت نے یہ اتنی بڑی عزت اورایساعظیم الشان مقام و مرتبہ اپنے اس بندے کے نصیب میں لکھاہواتھا۔

خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطابؓ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں جب شدیدزخمی ہوگئے،بچنے کی امیدکم تھی،تب اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقررکردیجئے…‘‘اس پر حضرت عمرؓنے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکیدکی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں،ان چھ افرادمیں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی شامل تھے۔

کوفہ سے مدینہ واپسی کے بعداب سعدبن ابی وقاصؓ کازیادہ وقت اللہ کی عبادت وخلوت نشینی میں بسرہونے لگاتھا،اسی کیفیت میں شب وروزکاسفرجاری رہا ، وقت کے ساتھ ساتھ ضعف اورکمزوری بھی بڑھتی چلی گئی۔

اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک روزاپنے گھروالوں سے کہاکہ’’ فلاں جگہ میراایک صندوق رکھاہے ، وہ لے آؤ‘‘چنانچہ وہ صندوق حاضرکیاگیا،سعدبن ابی وقاصؓ نے ان سب کے سامنے وہ صندوق کھولا،اس میں سے ایک نہایت ہی بوسیدہ ، خستہ حال ، اوربہت ہی پرانالباس برآمدہوا،ان کے اہل وعیال ابھی حیرت میں گم صم یہ منظردیکھ ہی رہے تھے کہ سعدؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا’’میری طرف سے یہ وصیت یادرکھناکہ میری وفات کے بعدمجھے اس لباس میں کفن دیاجائے‘‘تب وہ سب افراد مزیدحیرت وتعجب کی کیفیت میں اوراستفہامیہ اندازمیں ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے، تمام ترخوشحالی وفراوانی کے باوجوداس قدرپرانے اوربوسیدہ لباس میں تکفین اورتدفین کی یہ خواہش اوریہ وصیت؟

گھر والوں کی اس حیرت کومحسوس کرتے ہوئے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :’’غزوۂ بدرمیں شرکت کے موقع پرمیں نے یہی لباس پہن رکھا تھا ،اُس دن سے آج تک میں نے یہ لباس اپنے کفن کیلئے سنبھال کررکھا ہواہے ،اورمیں چاہتا ہوں کہ اللہ کے سامنے میں اسی لباس میں پیش ہوں‘‘۔یعنی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے غزوۂ بدرسے لے کراپنے انتقال تک یعنی تقریباً ترپن(۵۳)سال سے مسلسل یہ لباس اسی مقصدکیلئے سنبھال کررکھاہواتھا۔

چندروزبعداللہ کا یہ عظیم سپاہی ،رسول اللہ ﷺکے انتہائی جلیل القدرصحابی ، تاریخِ اسلام کایہ روشن ستارہ ، حضرت سعدبن ابی وقاصؓ سن پچپن ہجری میں بیاسی سال کی عمرمیں اس جہانِ فانی سے منہ موڑگئے اوراپنے اللہ سے جاملے،مدینہ منورہ کے قبرستان ’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کیاگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں