نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ(سورۃ آل عمران آیت :۱۹ )
میرے دوستو! یہ دین اﷲ کا ہے۔ اﷲ کے ہاں اس کے دین کی عزت ہے۔ اس لیے جو اس کے دین کو تھامتا ہے وہ بھی اﷲ کے ہاں معزز بن جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دینِ اسلام اور قرآن کو اپنا آخری دین اور آخری کتاب بنایا ہے اور پھر اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اﷲ نے لے رکھی ہے۔ یہ دین قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اس کی قیامت تک حفاظت کے اسباب بھی اﷲ تعالیٰ خود پیدا کرتے رہتے ہیں۔ دین کی حفاظت کے لیے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت سی ایسی باتیں امت کو بتائی ہیں جس سے یہ دین قیامت تک جب تک اﷲ کو منظور ہے اس وقت مقررہ تک زندہ اور قائم رہے گا
ﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں دین کی حفاظت کے جو اسباب نظر آتے ہیں وہ تین چیزیں ہیں:
1 مسجد
2 مدرسہ
3 دین کی دعوت کا کام
یہ تین کام ایسے ہیں کہ جب تک یہ دنیا میں ہیں دین کا سلسلہ دنیا میں باقی رہے گا یعنی دین کی بقاء ان سے وابستہ ہے۔
پہلا سبب:
مسجد:
یہی وجہ ہے کہ اﷲ رب العزت نے دنیا میں سب سے پہلے جو گھر بنایا وہ بیت اﷲ کو بنایا۔ اس میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسجد دنیا کے بقاء کے لیے ضروری امر ہے۔ قرآن کریم میں ہے: جعل اﷲ البیت الحرام قیاماً للناس ’’اﷲ تعالیٰ نے مسجد حرام کو دنیا میں لوگوں کی بقاء اور انسانی حیات کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘ (المائدہ:۹۷)
دوسرا سبب، مدرسہ:
*۔۔۔ اسی طرح نبیﷺ نے بعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں جو تیرہ سال گزار ے ہیں ان میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دار ارقم مدرسہ کا قیام فرمایا۔ جس کے معلّم آپﷺتھے اور صحابہ کرامرضوا ن اللہ اجمعین آپﷺ کے سامنے زانو ئے تلمذ طے کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ کی جس مضافاتی جگہ تشریف لے گئے وہاں بھی آپ نے سب سے پہلے مسجد قباء کی بنیاد رکھی پھر مدینہ منورہ کے شہر میں جا کر بھی سب سے پہلے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور پھر مسجد نبوی کے چبوترے پر صفہ کا مدرسہ قائم فرمایا جس میں کئی صحابہ کرام دین سیکھنے کے لیے مستقل قیام پذیر رہتے تھے۔ حتی کہ ان کے طعام کا نظام بھی وہیں پر تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کوئی صدقہ آتا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسے اصحاب صفہ کے پاس بھجوا دیتے اور اگر کوئی ہدیہ آتا تو آپﷺ اپنے گھر کے لیے کچھ رکھ لیتے اور کچھ اصحاب صفہ کو بھجوا دیتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مال دار صحابہ کرام کو ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ اصحاب صفہ کا خیال رکھا کریں اور ان کے طعام اور غذائی اشیاء کا بندوبست کرتے رہا کریں۔ چنانچہ مسجد نبویﷺ میں ایک رسی بندھی رہتی تھی جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے صدقات باندھ دیا کرتے تھے جنہیں بعد میں اصحاب صفہ وصول فرما لیا کرتے تھے۔ اسی طرح کسی جگہ سے کوئی دعوت طعام آتی تو آپﷺانہیں بھی اپنے ساتھ تشریف لے جاتے تھے۔
اصحابہ صفہ کی غربت اور قربانی کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں اور پانی پر گزارہ کیا کرتے تھے۔پہننے کے لیے کپڑے بھی پورے میسر نہ ہوتے تھے۔ بعض اوقات یہ حالت ہوتی تھی کہ بھوک اور نقاہت کی وجہ سے نماز میں صفوں کی صفیں گرجاتی تھی۔ بعض اصحاب صفہ کے بارے میں آتا ہے کہ انتہائی بھوک کی وجہ سے وہ پیٹ پر پتھر باندھا کرتے تھے اور اپنا جگر زمین کے نیچے دبایا کرتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کو مرگی کا دورہ پڑا ہے حالانکہ وہ مرگی کا دورہ نہیں بلکہ بھوک کی شدت سے پیدا ہونے والی غشی اور نقاہت ہوتی تھی۔
(ترمذی: حدیث نمبر ۲۴۷۴ ابواب الرقائق)
میرے دوستو! دین انہیں قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ آج ہمارے سامنے جو دین بالکل صحیح سالم حالت میں محفوظ و مدون ہے وہ سب مدارس اور تعلیم و تدریس کے سلسلے سے وابستہ لوگوں کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک یوں ہی چلتا رہے گا۔
تیسرا سبب دین داری:
قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول، دجال کی موت اور یاجوج ماجوج کے خاتمے ان سب چیزوں کے بعد دین پوری دنیا پر غالب ہوگا اور اس کے بعد دوبارہ کفر کا عروج ہوگا۔ اتنا عروج ہوگا کہ مسلمان بہت کم تعداد میں رہ جائیں گے اور ہر طرف کفار کا دور دورہ ہوجائے گا۔ اس وقت بھی جب قیامت انتہائی قریب ہوگی تو پہلے اﷲ تعالیٰ ایک عجیب و غریب قسم کی ہوا چلائیں گے جس سے سارے مسلمان مر جائیں گے اور صرف اور صرف کافر باقی رہ جائیں گے۔ وہ اپنی دنیا کے دھندوں میں لگے ہوں گے۔ کوئی کپڑے کے تھان نکال کر گاہک کو دکھا رہا ہوگا۔ کوئی گائے اور بھینس کے تھن سے دودھ نکالنے میں لگا ہوگا۔ تالاب بنانے والا تالاب کو لیپ رہا ہوگا کہ ایک آواز سیٹی کی مانند سنائی دے گی جو سب لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کردے گی۔ پھر وہ آواز آہستہ آہستہ اتنی بلند اور تیز ہوتی جائے گی کہ کلیجے پھٹ جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے اور یہ کائنات فنا کی چادر اوڑھ لے گی تو دیکھیں قیامت کافروں پر قائم ہوگی۔ اﷲ کا نام لینے والوں اور دین پر قائم رہنے والے پہلے ہی اٹھا لیے جائیں گے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی بقاء اور کائنات کا وجود دین اور دین والوں سے قائم ہے۔ یہ دین نہیں رہے گا تو دنیا بھی باقی نہیں رہے گی۔
*۔۔۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ قرب قیامت میں جب دنیا پر کافروں کا عروج ہوگا تو ایک کالا حبشی پتلی پنڈلیوں والا کافر بادشاہ بیت اﷲ کو منہدم کردے گا۔ اور قرآن کریم کے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے۔ ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کائنات ، قیامت اور اپنے فناکے لمحات میں اس وقت داخل ہوگی جب دنیا سے دین کے نقشے ختم ہوجائیں گے۔ یہ مساجد، مدارس ختم ہوجائیں گے اور دین کی بات کرنے والے اور اﷲ اﷲ کہنے والے ختم ہوجائیں گے اس وقت بے دینوں اور کافروں پر قیامت قائم ہوگی۔
آج کل دین والوں پر یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دین داروں کو اور اسلام اور قرآن کی بات کرنے والوں کو تاریک خیال اور پتھر کے زمانے کے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان معروضات سے آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ اعتراض بالکل بے جا ہے۔ یہ مسجد مدرسہ والے اگر ختم ہوگئے تو خود ان کی یہ دنیا اور اس کے سب وسائل و اسباب بھی ختم ہوجائیں گے۔
اس لیے میرے دوستو! اپنی اولادوں کو مدرسہ پڑھاؤ! ان کو دین کی لائن میں لگاؤ! تاکہ دین بھی محفوظ رہے اور دنیا کی حفاظت اور بقاء کا سامان بھی مہیا ہو۔
آخری بات:
آخر میں ایک ا ور بات کرکے اپنی معروضات ختم کرتا ہوں کہ بڑی قیامت تو آنی ہے۔ وہ تو برحق ہے۔ وہ تو دین ختم ہونے سے آئے گی ہی۔ لیکن دنیا میں یہ چھوٹی چھوٹی جو قیامتیں آتی ہیں۔ یہ آندھیاں، یہ طوفان اور حادثات، یہ زلزلے، میرے دوستو! یہ سب بھی دین کی کمی اور بے دینی کی زیادتی کی وجہ سے آتے ہیں جبکہ دین پر عمل کرنے کے صدقے سے یہ حادثات ٹل جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے بچنے کا طریقہ بھی دین پر چلنے اوردین کی طرف آنے میں ہے۔ کسی اور چیز میں نہیں۔
دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں دین پر جمادے۔ اپنی اولادوں کو دین پر لانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ دین والوں کی قدر کرنے اور ان کے ساتھ اکرام اور تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائے! اور ہم سب کے لیے اﷲ اپنی رضا کا راستہ آسان فرمائے!
(آمین)