ہندؤوں کے گھر کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

 ہمارے پڑوس میں کافی ہندو رہتے ہیں۔اگر وہ ہمارے گھر کچھ کھانے پینے کے لیے بھیجیں تو کیا ہم کھا سکتے ہیں؟

نیز ان سے دوستی رکھنا کیسا ہے؟کیونکہ ایک ہی بلڈنگ میں رہتے ہیں تو اترتے چڑھتے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔۔تفصیلا جواب درکار ہے.

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! 

ہندوؤں کے ساتھ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی کا معاملہ کرنا جائز ہے ۔اور مواساۃ یعنی احسان اور نفع رسانی کا معاملہ بھی صحیح ہے لیکن موالات یعنی قلبی دوستی اور لگاؤ کا معاملہ کسی حالت میں مناسب نہیں۔

ان کے گھرکا کھانا جائز ہے بشرطیکہ حلال ہو اور کسی نجس چیز کا استعمال نہ کیا ہو ۔ہندؤوں سے حسن سلوک کرنا بھی جائز ہے۔اپنے اخلاق سے متاثر کرنا چاہیے تاکہ وہ دین اسلام کی طرف آئیں۔

﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾ [آل عمران:28]

ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں ۔

(العالمکیریہ: 4/277) 

ولا باس بطعام المجوس کلہ الا الذبیحہ، فان ذبیحتہم حرام ،ولم یذکر محمد الاکل مع المجوس ومع غیرہ من اھل الشرک انہ ھل یحل ام لا ،وحکی عن الحاکم الامام عبد الرحمن الکاتب : ان ابتلی بہ المسلم مرۃ او مرتین، واما الدوام علیہ،فیکرہ،کذا فی المحیط۔

فقط 

واللہ اعلم

19 محرم1441ھ

7 ستمبر 2020ء

اپنا تبصرہ بھیجیں