عدتِ وفات وقتِ انتقال کے وقت پوری ہوگی

فتویٰ نمبر:747

سوال:بعد سلام ایک سوال عرض ہے کہ میرے والد صاحب عبد السلام غوری کا انتقال ۱۷ دسمبر ۲۰۰۳ کو ہوا تھا وقت دن کے تین بج کر پندرہ 3:15 منٹ پر اس حساب سے میری والدہ کی عدت ۲۵ اپریل ۲۰۰۴ کو پوری ہورہی ہے میری والدہ کی عمر اس وقت 60ساٹھ برس ہے تقریباً ،اور والدہ نے نواسی کی شادی کیلئے اسی دن بھاولنگر کیلئے روانہ ہونا ہے اب آپ یہ بتائے کہ والدہ کی عدت بوقتِ انتقال پوری ہونی چاہیئے یا بعد مغرب پوری ہونی چاہیئے ؟شریعت کی رو سے

الجواب حامداً ومصلیاً

چونکہ عدتِ وفات شوہر کی موت واقع ہونے کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے اس لئے پچیس اپریل ۲۰۰۴؁ء کو اسی وقت(یعنی سواتین بجے )یہ عدت پوری ہوجائیگی(۱) مغرب تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ۔

            چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :

الفتاوى الهندية – (1 / 526)

(الْبَابُ الثَّالِثَ عَشَرَ فِي الْعِدَّةِ) هِيَ انْتِظَارُ مُدَّةٍ مَعْلُومَةٍ يَلْزَمُ الْمَرْأَةَ بَعْدَ زَوَالِ النِّكَاحِ حَقِيقَةً أَوْ شُبْهَةَ الْمُتَأَكِّدِ بِالدُّخُولِ أَوْ الْمَوْت.

نیز احسن الفتاویٰ صـــــــــ۵۸۵/۱ میں ہے

سوال :ہندہ کا خاوند دن کے دس بجے فوت ہوا تو اب اس کی عدت جب چار ماہ دس دن پورے ہونگے تو دن کے دس بھے عدت پوری ہوگی یا شام تک عدت پوری ہوگی کیا آخری دن پورا لگے گا؟

الجواب   دن کے دس بجے عدت پوری ہوجائے گی .الخ

التخريج

(۱) البناية شرح الهداية – (5 / 592)

 يلزم المرأة عند زوال ملك المتعة متأكدا بالدخول أو الخلوة أو الموت، وقيل: هي عبارة عن تربص المرأة بعد زوال النكاح أو شبهة

الفقه على المذاهب الأربعة – الجزيري – (4 / 241)

أنها تربص مدة معلومة تلزم المرأة بعد زوال النكاح سواء كان النكاح صحيحا أو بشبهة إذا تأكد بالدخول أو الموت فقوله : تربص أي انتظار وقوله : مدة معلومة المراد بها الجل الذي ضربه الشارع كما بيناه ومعنى كون المرأة تنتظر في هذه المدة أي تنتظر نهايتها

اپنا تبصرہ بھیجیں